Sep ۰۵, ۲۰۱۵ ۱۶:۲۰ Asia/Tehran
  • ترکی کے ساحل پر پڑی \\\\\\\
    ترکی کے ساحل پر پڑی \\\\\\\" آئلان کردی \\\\\\\" کی نعش

ترکی کے ساحل پر پڑی آئلان کردی کی نعش انسانیت کے لیے سوالیہ نشان ہے


زندگی کے کئی چہرے ہوتے ہیں جنہیں انسان دیکھتا ہے اوردیکھ کر بھول جاتا ہے، لیکن کبھی کبھی کوئی چہرہ ایسا بھی ہوتا ہے جس کو دیکھ کر انسانیت شرما جاتی ہے۔ ان دنوں ایک ایسا ہی چہرہ میرے احساسات کے تعاقب میں ہے۔ یہ چہرہ آئلان کردی  کا ہے جس کی عمرصرف تین سال تھی مگرایسا محسوس ہورہا ہے جیسے اس کی نعش ترکی کے ساحل پرہزاروں سال سے پڑی ہے اورسمندرکے آنسوؤں سے شرابور ہے۔

یہ صرف ایک نعش نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے بدنما چہرے کا عکس ہے، انسانیت کا راگ الاپ کردنیا کو جنگوں میں جھونکنے والے مغربی ممالک کے منہ پر طمانچہ ہے، مگراس سے بڑا طمانچہ یہ مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کے لیے ہے جن کی دولت کا اثران کے اپنے معدے تک رہتا ہے، ان کے ہاں دولت کی ریل پیل انسان کی روح تک سرایت نہیں کر پاتی، ان کی دولت سے قربانی کے چراغ روشن نہیں ہوتے بلکہ صرف مفادات کی آگ بھڑکتی ہے۔ تیل خریدنے اور تیل فروخت کرنے والوں کے درمیان انسانیت کچلی جارہی ہے، ترکی کے ساحل پر ان دونوں کی خباثت زمین بوس ہے۔

زندگی درد کا سفر ہے لیکن ایسا درد جس میں کوئی چیخ نہ گونجے، کوئی فریاد نہ کی جائے، کوئی آہ و بکا نہ ہو، وہ درد مزید درد میں تبدیل ہوکرضمیرکا بوجھ بن جاتا ہے، سوہانِ روح ہوجاتا ہے، زندگی کی آنکھوں میں اذیت کی بے خوابی پیدا کردیتا ہے، لیکن تاجراورتجارت پسند طبقےکواس سے کیا، حکومتوں کا ان احساسات سے کیا تعلق، ترکی کے ساحل پران احساسات کی لاش بے گوروکفن پڑی ہے۔

ہجرت انسانوں کی زندگی میں کوئی نیا تجربہ نہیں۔ ہردورمیں لوگوں نے ہجرت کی، ہم پاکستانیوں سے زیادہ ہجرت کے مصائب سے کون واقف ہے۔ قیام پاکستان کی بنیاد میں ہجرت کا خون پڑا ہے، آج تک ان راستوں پر خون کے دھبے اس شب خون کی گواہی دیتے ہیں۔ بھارت ہو چاہے بنگلہ دیش، پاکستان ہو یا افغانستان اور اب چاہے عراق، شام، ترکی ہو یا یورپ کے ممالک، ان سب نے اپنے اپنے حصے کے دکھ سہے ہیں، مگراس کے باوجود ساری دنیا کی بینائی ترکی کے ساحل پراپنا وجود کھوچکی ہے۔

اقوامِ متحدہ کا تماشا اب ختم ہونا چاہیے اور طے کرلیں کہ کون ظالم ہے اورکون مظلوم، تاکہ کچھ توفیصلہ ہوسکے کہ کون انسان ہے اورکون درندہ۔ عالمی سیاست کے مہروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ تیل کے ذخائر بھی ایک دن ختم ہوجائیں گے۔ مگر شاید ہوس کا یہ دھندا ختم ہونے کو نہیں آئے گا بلکہ یہ حرص پھرکسی اور چہرے کے ساتھ نمودار ہوجائے گی۔ عہد حاضر میں اس معاشی ہوس کا زندہ منظر ترکی کے ساحل پر ابھر آیا ہے مگر کس کی مجال ہے، جو اپنے گریبان میں جھانکے۔

قیام پاکستان پرانسان بھیڑیے بنے تو امرتا پریتم اورسعادت حسن منٹو نے لہو میں ڈبو کرحروف تخلیق کیے۔ افغانستان پرشب خون مارا گیا تو خالد حسینی نے درد کا نوحہ لکھا۔ فلسطین کی ظالم روایتوں پر محمود درویش فریاد کناں ہوا۔ جاپان پرایٹمی حملے کے بعد مسوجی ایبوسے نے آگ کی بارش میں اپنی روح کو راکھ کر کردار تخلیق کیے۔ کربلا کے صبر سے بھلا کون واقف نہیں، انیس و دبیر کے درد و الم سے کون شناسا نہیں۔
ترکی کے ساحل پر مردہ حالت میں ملنے والے بچے کے والد ”عبداللہ کردی“ کو اب پوری دنیا پناہ دینے کو تیار ہے مگر وہ اب صرف اپنے آبائی علاقے میں جان دینا اور دفن ہونا چاہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ترکی کے ساحل پر اس معصوم بچے کی نعش کی صورت میں وہ پہلے ہی مرچکا اور صرف اب اس کا دفن ہونا باقی ہے۔ اس کی زندگی اب صرف سانسوں کا نوحہ ہے۔ یہ سانحہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبرداروں پر اجتماعی تف ہے۔ اس جھوٹی دنیا میں خود غرض انسانوں کے لیے سوالیہ نشان ہے،
 یہ وہی دنیا ہے جس کے لیے جوش ملیح آبادی نے کہا تھا ”کفن میں جیب نہیں ہوتی“

اور ظلم کے حد سے بڑھ جانے پرافتخار عارف کے قلم سے یہ شعر نکلا:

حُسین تم نہیں رہے، تمہارا گھر نہیں رہا

مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا

ایلان عبداللہ جیسے بچوں کی نعشیں کب تک سوالیہ نشانوں میں تبدیل ہوتی رہیں گی، کب انسانیت سب مفادات سے مقدم ہوگی، کب تیل سے زیادہ خون مہنگا ہوگا، ایسے بہت سارے سوالات ترکی کے ساحل پربکھرے ہوئے ہیں۔ کوئی ہے جو ان کو چن کرجواب دے؟ ورنہ خاموشی کے مقبرے میں ایلان کی سسکیاں کسی کو چین نہیں لینے دیں گی اور جون ایلیا کے بقول ”یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا“ کا نوحہ پڑھتے ہوئے زندگی گزرجائے گی۔
ترکی کے ساحل پر پڑی ایلان عبداللہ کی نعش انسانیت کے لیے سوالیہ نشان ہے، اپنے ڈوبنے کا تماشہ دیکھنے والوں سے مخاطب ہے کہ

قتل ہو تو میرا سا موت ہو تو میری سی

میرے سوگواروں میں آج میرا قاتل ہے



بلاگ تحریر: خرم سہیل  (بشکریہ ڈان ڈاٹ کام)

ادارے کا مقالہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ٹیگس