Oct ۰۴, ۲۰۱۵ ۱۶:۵۱ Asia/Tehran
  • اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈا
    اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈا

سعودی وہابیوں سے وابستہ سیاسی حلقوں نے کئی روز سے سعودی عرب کی پالیسیوں پر ہونے والی وسیع تنقید کی شدت کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم سے اسلامی جمہوریہ ایران پر بےبنیاد الزامات عائد کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے لگائے جانے والے ان بےبنیاد الزامات میں خلیج فارس میں واقع تین ایرانی جزیروں کی ملکیت کے کھوکھلے اور بےبنیاد دعوے بھی شامل ہیں۔

اسی سلسلے میں متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید نے یہ بات بیان کرتے ہوئے کہ علاقے کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سمیت متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے، دعوی کیا کہ ایران عرب ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کر رہا ہے۔

انھوں نے اسی طرح تین ایرانی جزیروں تنب بزرگ، تنب کوچک اور ابو موسی پر امارات کی ملکیت کا بےبنیاد دعوی ایک بار پھر دہرایا۔ بحرینی حکام نے بھی ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد برآمد کرنے جیسے گھسے پٹے بےبنیاد الزامات لگا کر دعوی کیا کہ ایران بحرین کے اندر دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل نمائندے غلام علی خوش رو نے اتوار کے روز ایک بیان میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سترویں اجلاس میں بحرین اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیا۔

اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے سانحہ منی کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے بیانات اور موقف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بحرینی اور اماراتی حکام کے ایسے امور کے بارے میں بیانات سے کہ جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، مسئلے کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

انھوں نے اسی طرح تین ایرانی جزیروں تنب بزرگ، تنب کوچک اور ابوموسی کی ملکیت کے بارے میں متحدہ عرب امارات کے بےبنیاد دعووں اور خلیج فارس کی تاریخ میں تحریف کے جواب میں کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ خلیج فارس کے نام کی تحریف کے پس پردہ بعض سیاسی محرکات کے باوجود بعض عرب ممالک کے حکام خلیج فارس کے نام کو بدلنے اور ایران کی ارضی سالمیت کے بارے میں بےبنیاد دعووں کو دہرانے کے بارے میں اپنے ماضی کے غلط رویے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

واضح سی بات ہے کہ اس پروپیگنڈے کو تیز کرنے کا ایک مقصد سانحہ منی کے مسئلے کو پس منظر میں لے جانا اور سعودی عرب پر دباؤ میں اضافے سے پیدا ہونے والی تشویش کو کم کرنا ہے۔ اس دوران خلیج فارس کے بعض عرب ممالک سعودی عرب کی سرکردگی میں ایران کو بدنام کرنے اور اس کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں حقائق میں تحریف کے لیے کوئی بہانہ نہ ہونے کی وجہ سے اب دوسرے راستوں سے ایرانو فوبیا کی پالیسی کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری جانب مغربی ایشیا میں بھی سیاسی و فوجی توازن تبدیل ہو رہا ہے اور روس کی جانب سے داعش کے خلاف موثر اقدامات اور شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر روس کے ہوائی حملوں کی کامیابی سے امریکہ کی سرکردگی میں داعش کے خلاف نام نھاد اتحاد میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایران کے خلاف بےبنیاد دعووں کے خفیہ و آشکارا مقاصد نے خلیج فارس کے عرب ممالک کے حکام کو دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور انھیں شام عراق اور یمن میں تخریبی کردار ادا کرنے کی جانب دھکیل دیا ہے، یہ ایسا کردار ہے کہ جس کا انھیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

یہ گمراہ کن موقف البتہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ علاقے میں اصلی خطروں یعنی اسرائیل اور داعشی - صیہونی دہشت گردوں کا حقیقی مقابلہ پس منظر میں چلا جائے۔

ٹیگس