Oct ۲۱, ۲۰۱۵ ۱۸:۰۱ Asia/Tehran
  • شمالی افغانستان میں بدامنی میں شدت
    شمالی افغانستان میں بدامنی میں شدت

شمالی افغانستان میں طالبان کے حالیہ حملوں کے بعد اس ملک کے نائب صدر نے طالبان کو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیا ہے۔ جنرل عبدالرشید دوستم نے ، کہ جو جنگ کی کمان اپنے ہاتھ میں لینےکے لئے جوزجان پہنچے ہیں، اس صوبے میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی کے پٹھو ہیں۔ اور ہم اپنی فوج اور پولیس پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کو کچل کر رکھ دیں گے۔

جنرل عبدالرشید دوستم نے شمالی افغانستان کے عوام کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ان کو پریشانی اور تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے اور عنقریب غورماچ سمیت اس ملک کے شمالی صوبوں کو طالبان کے قبضے سے آزاد کرا لیا جائے گا اور طالبان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

جنرل عبدالرشید دوستم نے اس بات پر تاکید کی کہ افغانستان کی سیکورٹی کی صورتحال تسلی بخش ہے ۔

انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ طالبان کے تمام منصوبے ناکام ہو جائیں گے۔

جنرل عبدالرشید دوستم نے دو ماہ قبل شمالی افغانستان کا دورہ کر کے طالبان کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔

لیکن ان کی کابل واپسی کے بعد طالبان نے ایک بار پھر اس علاقے کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا لیا۔

طالبان کے سابق سرغنے ملا محمد عمر کی ہلاکت کی خبر منظر عام پر آنے اور طالبان کے ساتھ کابل کے امن مذاکرات ملتوی ہونے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہت کشیدہ ہوگئے ہیں۔

افغانستان میں مختلف حلقے خصوصا فوج طالبان کی وسیع کارروائیوں اور ان کے اہداف کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔

ان حلقوں کا خیال ہے کہ طالبان غیر ملکی حمایت کے بغیر ایک ہی وقت میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں عسکری کارروائیاں انجام دینے کی توانائی نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی مختلف شہروں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔
اس لئے ان حلقوں کا کہنا ہے کہ طالبان کو سب سے زیادہ امداد پاکستان فراہم کر رہا ہے۔

طالبان کی کارروائیوں کے بارے میں سیاسی اور سیکورٹی حلقوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے وہ شمالی افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں آنےوالا اضافہ ہے۔

روس اور چین جیسے خطے کے حلقے طالبان کی جانب سے جنگ کا دائرہ شمالی افغانستان تک پھیلانےکو دہشت گردی اور انتہا پسندی
کو وسطی ایشیا اور قفقاز کے علاقے میں منتقل کرنے اور چین اور روس کی سرحدوں کو غیر محفوظ کرنےکی ایک سوچی سمجھی اور پالیسی قرار دیتے ہیں۔ اس لئے روس نے بھی حال ہی میں انتہا پسندی اور دہشت گرد گروہ داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔

اس کے باوجود مغربی حلقے طالبان کی پیشقدمی کو افغانستان کی کمزوری ظاہر کر کے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سنہ دو ہزار سترہ تک اپنے ملک کے فوجی افغانستان میں رکھنے پر مبنی امریکی صدر باراک اوباما کے اقدام کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں اپنی چودہ سالہ فوجی موجودگی کے دوران افغانستان کی فوج کی تقویت اور اسے مسلح کرنے خصوصا اس کی تشکیل نو کرنے کے سلسلے میں کوئی اقدام انجام نہیں دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صوبہ غزنی کے گورنر نے افغان فوج اور پولیس کی تقویت پر مبنی افغانستان کی حکومت کی کوشش کے ساتھ ساتھ اس صوبے کے جاغوری ضلع کے عوام کو تکفیری اور صیہونی دہشتگردوں کے مقابلے کے لئے مسلح کرنے کی خبر بھی دی ہے۔

بہرحال افغانستان کے مختلف حلقوں کے نزدیک دہشت گردی افغانستان اور پاکستان کی مشترکہ دشمن ہے اوراس کے مقابلے کے لئے علاقائی خصوصا اسلام آباد اور کابل کا باہمی تعاون بہت ضروری ہےاور دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کا ماحول صرف ان دہشت گردوں کے مفاد میں ہے جو خطے میں بدامنی پھیلانے کے لئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔

ٹیگس