Jan ۱۴, ۲۰۱۶ ۱۷:۴۶ Asia/Tehran
  • انڈونیشیا ایک بار پھر دھماکوں کی زد میں

انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں یکے بعد دیگرے متعدد بم دھماکوں اور فائرنگ میں کئی افراد جاں بحق اور زخمی ہو گئے جن میں متعدد پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

اس سلسلے میں موصول ہونے والی خبروں کے مطابق ایک بم دھماکہ صدارتی محل کے قریب جبکہ دو بم دھماکے اقوام متحدہ کے دفتر کے قریب کافی شاپ میں ہوئے جبکہ پاکستان اور ترکی کے سفارت خانوں کے قریب بھی بم دھماکے ہوئے ہیں۔ موصولہ خبروں کے مطابق ان حملوں میں کم از کم چودہ دہشت گرد شریک تھے۔

العالم نے انڈونیشیا کی پولیس کے حوالے سے بریکنگ نیوز میں بتایا کہ ان بم دھماکوں میں تین پولیس اہلکاروں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ بم دھماکے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں کہ جب انڈونیشیا کی انسداد دہشت گردی پولیس نے دو ہفتے قبل سے دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے لیے اپنی کارروائیاں شروع کی ہیں اور اس نے تین چینی اویغور دہشت گردوں سمیت کئی دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے۔ انڈونیشیا کی پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والے دہشت گردوں نے غیرملکیوں اور شیعوں کے خلاف کارروائی کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ چونکہ ان میں بعض دھماکے پاکستان اور ترکی کے سفارت خانوں کے قریب ہوئے ہیں اس لیے اسے ایک سوچا سمجھا ٹارگیٹڈ اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔

ملایشیا، انڈونیشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ کی پولیس نے بارہا داعش کے دہشت گردوں کی ناکام کارروائیوں کی خبر دی ہے۔ اس وقت بھی انڈونیشیا کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ملک کے مختلف علاقوں سے داعش سے وابستہ کئی افراد کو گرفتار کیا ہے۔ انڈونیشیا دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے اور قدیم زمانے سے یہاں مختلف مکاتب فکر نے پرورش پائی ہے جن میں بعض ماڈرن ازم، سیاسی جماعتوں اور پرنٹ میڈیا کےخلاف تھے۔ نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں جنرل سوہارتو کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس قسم کی خبریں بہت کم سننے کو ملتی تھیں۔ سوہارتو کے بعد انڈونیشیا کے پہلے صدر ڈاکٹر احمد سوکارنو کے اقدامات کے نتیجے میں سیاسی پلورلرزم نے انڈونیشیا کے مسلمان معاشرے میں اپنی جگہ بنائی

۔ حقیقت بھی یہ تھی کہ انڈونیشیا میں تمام انتخابات کا احترام کیا جاتا تھا۔ یعنی یوسف حبیبی، عبدالرحمان وحید، محترمہ میگاواتی اور سوسیلو بامبانگ کے بعد اب جوکو ویدودو شفاف انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آئے۔ اس لیے ان دہشت گردانہ اقدامات کا بہانہ بظاہر داخلی سیاسی مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ بہت سے ملکوں میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں اہداف ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس بنا پر اس قسم کے دہشت گردانہ واقعات کو ایک مشترکہ خطرہ سمجھنا چاہیے۔

بعض سیاسی مبصرین دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں کی کمزوری کواس قسم کے واقعات کے دائرہ پھیلنے کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گرد گروہ داعش نے کہ جو امپیریلزم اور علاقے اور بعض اسلامی ملکوں کی رجعت پسندی کے ملاپ کا نتیجہ ہے، اسی کمزوری، اختلاف رائے، اقتصادی پسماندگی اور امتیازی سلوک کا شکار دسیوں لاکھ مسلمانوں کی غربت سے فائدہ اٹھایا ہے تاکہ وہ اس ذریعے سے مغرب کے حقیقی مقاصد کو پورا کر کے یعنی مشرق وسطی اور اسلامی ملکوں میں اندھی جنگوں کی آگ کے شعلے بھڑکا کر اپنے وجود کو ثابت کرے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ نقصان اٹھانے والے مسلمان ممالک سیاسی مذاکرات اور رفت و آمد اور سیکورٹی کے شعبوں میں اطلاعات کے تبادلے کے عمل کو مضبوط بنا کر دہشت گردی پر قابو پا سکتے ہیں۔ بعض ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک صرف اجتماعی عزم، نظریات میں ہم آہنگی پیدا کر کے اتحاد و یکجہتی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ دہشت گردی کے نظریات کو بمباری یا پولیس کی فائرنگ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ٹیگس