Jan ۱۶, ۲۰۱۶ ۱۷:۰۵ Asia/Tehran
  • پاکستان میں جیش محمد کے دو مدارس سیل کر دیئےگئے

پاکستانی حکومت نے صوبہ پنجاب میں ایک انتہا پسند گروہ کا دینی مدرسہ سیل کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ انتہا پسندگروہ ہندوستان کے پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے میں ملوث تھا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ جیش محمد کے ایک دینی مدرسے پر پولیس کے چھاپے کے بعد اسے سیل کر دیا ہے اس سے پہلے بھی جیش محمد کا ایک مدرسہ سیل کیا گیا ہے۔

رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ بارہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

مسلح افراد نے دو جنوری کو ہندوستان کے پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ کیا تھا۔ اس سے قبل ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے دورۂ افغانستان سے واپسی پر لاہور گئے تھے جس کے باعث دو ایٹمی طاقتوں کے تعلقات میں بہتری کے امکانات میں اضافہ ہوا تھا۔

ہندوستانی حکام کے مطابق پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ پاکستان میں موجود جیش محمد نے کیا۔اس حملے میں سات فوجی ہلاک ہوئے۔ سیاسی مبصرین کے نزدیک پاکستان کو امید ہے کہ جیش محمد کے مدارس بند کرنے سے اسے ہندوستان کی خوشنودی حاصل ہوجائے گی اور دونوں ممالک کے حکام کی طے شدہ ملاقات کے منسوخ ہونے جیسے منفی نتائج کی بھی روک تھام ہو سکے گی۔ لیکن یہ بعید نظر آتاہے کہ ہندوستان صرف جیش محمد سے تعلق رکھنے والے دینی مدارس کے بند کئے جانے پر راضی ہو جائے گا کیونکہ ہندوستان یہ توقع رکھتا ہے کہ پاکستان پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے میں ملوث عناصر کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلائے گا۔

بہرحال پاکستانی حکام کے مطابق ہندوستان نے پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کے سلسلے میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کو مکمل معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔

عالمی اور علاقائی حلقوں کے نزدیک پاکستان کے بعض دینی مدارس خطے میں انتہا پسندی اور نام نہاد جہادی گروہوں کے اصل حامی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں تقریبا بیس ہزار ایسے دینی مدارس سرگرم ہیں جن کا تعلق مختلف سیاسی اور مذہبی شخصیات سے ہے۔

ان میں سے بہت سے مدارس کو بیرون ملک سے مدد ملتی ہے جس کی تصدیق پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے حال ہی میں کی ہے۔

ان دینی مدارس کو مدد فراہم کرنے والے غیر ملکی حلقے ان مدارس کے پروگراموں اور نصاب پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔

ان حلقوں میں سعودی عرب سر فہرست ہے جو پاکستان کے دینی مدارس کی وسیع پیمانے پر مدد کرنے کے ذریعے وہابیت، تشدد اور فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ افغانستان، پاکستان اور علاقے میں موجود سیاسی اور علاقے کے سیکورٹی اور سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان کی حکومت پورے ملک خصوصا صوبہ پنجاب کے دینی مدارس پر کنٹرول کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں کرے گی تب تک نہ صرف خطے میں تشدد اور انتہا پسندی پر قابو نہیں پایا جا سکے گا بلکہ انتہا پسند اور تشدد پسند گروہوں کی مالی حمایت اور ان کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے سبب تشدد اور فرقہ واریت میں شدت پیدا ہوگی۔

بہرحال اگر پاکستان میں دینی مدارس بند کرنے کا سلسلہ ان کو کنٹرول کرنے کے مقصد سے ایک باقاعدہ پروگرام کے تحت شروع کیا گیا ہے تو اس صورت میں پاکستان اور علاقے کی سطح پر فرقہ واریت اور انتہا پسندی میں کمی کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن اگر یہ صرف ہندوستان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئےکیا ہے تو پھر خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو پانے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

ٹیگس