Feb ۱۴, ۲۰۱۶ ۱۶:۲۳ Asia/Tehran
  • افغانستان میں داعش کا خطرہ

افغانستان میں مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی پالیسیوں سے دہشتگردی کو بڑھاوا مل رہا ہے۔

افغانستان کی فوج نے کہا ہے کہ وہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف کامیاب کارروائیاں انجام دے رہی ہے نیٹو نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں داعش کے تقریبا تین ہزار دہشتگرد موجود ہیں۔

افغانستان میں نیٹو کی افواج کے ترجمان جنرل ویلسن شفتر نے کہا ہے کہ افغانستان میں داعش کے دہشتگردوں کی تعداد تقریبا تین ہزار بتائی جاتی ہے اور اس تکفیری گروہ کے دہشتگردوں کی اکثریت صوبہ ننگرہار کے مختلف علاقوں میں بکھری ہوئی ہے۔ صوبہ ننگر ہار افغانستان کے مشرق میں واقع ہے۔ یاد رہے حکومت کابل نے اب تک تکفیری گروہ داعش کے دہشتگردوں کی تعداد کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔

افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے میونیخ سیکورٹی کانفرنس میں انتباہ دیا تھا کہ اھل عالم کی غفلت کی وجہ سے داعش دہشتگرد گروہ افغانستان میں اپنے دہشتگردوں کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ گذشتہ برس کی نشست میں انہوں نے داعش کے خطرے کے بارے میں خبردار کیا تھا لیکن بعض حلقوں نے ان کے اس انتباہ کو افغانستان کے لئے عالمی توجہ حاصل کرنے کی کوشش قراردیا تھا۔

سیاسی مبصرین کی نظر میں جنرل ویلسن شیفتر نے داعش تکفیری دہشتگردوں کے جو اعداد و شمار دئے ہیں وہ نہ صرف افغانستان کے لئے بلکہ پورے علاقے کے لئے خطرہ شمار ہوتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ امریکہ اور نیٹو نےافغستان میں گذشتہ پندرہ برسوں میں اپنی فوجی موجودگی کے دوران دہشتگردوں سے مقابلے کے لئے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا ہے اور اب افغانستان داعش جیسے دہشتگردوں کے اڈے میں تبدیل ہورہا ہے۔ امریکہ نےسنہ دوہزار ایک میں طالبان اور القاعدہ سے مقابلے کے بہانے افغانستان پر لشکر کشی کی تھی۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے مونیخ کانفرنس میں خبردار کیا ہے کہ القاعدہ دہشتگرد گروہ دوبارہ منظم ہورہا ہے۔ انہوں نے القاعدہ کے منظم ہونے کے نتائج کے بارے میں بھی خبردار کیا۔

افغانستان میں تشدد پسند گروہوں کا دوبارہ منظم ہونا اور اس ملک میں داعش کے معرض وجود میں آنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اور نیٹو نے سنجیدگی سے ان دہشتگردوں کا مقابلہ نہیں کیا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ افغانستان کی فوج اور پولیس کو کمزور رکھ کر ایسے حالات پیدا کردئے ہیں کہ افغان فوج اور پولیس بھرپور طرح سے دہشتگردوں کا مقابلہ نہ کرپائے۔ اس کے باوجود افغان فوجی کمانڈروں کا کہنا ہےکہ انہیں مشکلات کے باوجود دہشتگردوں کے خلاف کامیابیاں ملی ہیں۔

سیاسی مبصرین کی نظر میں امریکہ، افغانستان میں بحران کی باگ ڈور سنبھال کر جنگ کو ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے کی طرف لے جانے کے ایجنڈے پر کاربند ہے۔ سنہ دوہزار ایک میں امریکہ نے القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے بہانے افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا اور اب تکفیری دہشتگرد گروہ داعش اس بات کا بہانہ بنا ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھادیں۔

اس بات میں کسی طرح کا شک نہیں ہے کہ امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ وہ افغانستان کو اپنی فوجی چھاونی میں تبدیل کرلے۔ دہشتگردی میں اضافہ کرنا اور مرکزی ایشیا اور قفقاز کی طرف دہشتگردوں کو روانہ کرنا اور چین و روس کی سرحدوں پر بدامنی پھیلانا بھی امریکہ کے اھداف میں شامل ہے۔ امریکہ نے افغانستان کی حکومت اور فوج کو کمزور رکھنے اور اسی کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کے سہارے افغانستان اور علاقے کے عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے تا کہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کا جواز پیش کرسکے۔

ٹیگس