Feb ۲۰, ۲۰۱۶ ۱۴:۳۴ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے دعوے

سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے علاقے میں اپنے سیاسی اقدامات اور سرگرمیوں کا جواز پیش کرنے کے لیے سی این این کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ایران پر علاقے میں فرقہ وارانہ پالیسی اختیار کرنے کا الزام لگایا ہے۔

انھوں نے دعوی کیا کہ ایران نے فرقہ وارانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے عراق، افغانستان اور پاکستان سے بہت سے افراد کو شام میں بشار اسد کی حمایت کے لیے بھیجا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اسی طرح حزب اللہ لبنان کو دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے حزب اللہ کو قائم کیا ہے۔

انھوں نے ایران کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں بھی دعوی کیا کہ ریاض ایران کے ساتھ مخاصمانہ رویہ نہیں رکھتا ہے اور سعودی عرب ایران کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ ہے لیکن ہمسایوں کو اچھے ہمسائے اور دوسروں کے امور میں مداخلت نہ کرنے کے اصول کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کے ان بیانات اور مواقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بدستور وہم اور دھوکے کا شکار ہیں۔

سعودی عرب کے حکام خاص طور پر ایران کے ایٹمی معاہدے اور مشترکہ جامع ایکشن پر عمل درآمد کے بعد یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ الگ تھلگ ہو کر رہ گئے ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ بھی اس وہم اور دھوکے کے ساتھ کہ جس کے آثار سعودی حکام کے اقدامات اور مواقف سے صاف دکھائی دیتے ہیں؛ ریاض کی غیرمنطقی پالیسیوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کی پالیسی علاقے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا ہے۔

سعودی حکام کا اس ملک کی روایتی شاہی سوچ کے ساتھ یہ خیال ہے کہ وہ تیل کے پیسے اور ہتھیاروں کی خریداری سے علاقے کی تبدیلیوں کا راستہ معین کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال لبنان کے بارے میں سعودی عرب کا حالیہ فیصلہ ہے۔

سعودی حکام نے ایک مشکوک اقدام کرتے ہوئے لبنان کی فوج اور سیکورٹی فورسز کی مالی امداد روک دی ہے۔ سعودی عرب نے لبنان کو دی جانے والی تین ارب ڈالر کی فوجی امداد روکنے کے علاوہ اس ملک کے سیکورٹی اداروں کی ایک ارب ڈالر کی امداد بھی ختم کر دی ہے۔

سعودی حکام نے کہا ہے کہ ان کا یہ اقدام نام نہاد عرب اجماع سے لبنان کے نکلنے کا جواب ہے اور لبنان کے مواقف سعودی عرب کی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔

سعودی عرب نے یہ اقدام لبنان کے وزیر خارجہ کی جانب سے اس قرارداد کی حمایت نہ کرنے کے بعد انجام دیا ہے کہ جو عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اختتام پر ایران کے خلاف اور سعودی عرب کی حمایت میں جاری کی گئی۔

ان بیانات سے بخوبی ظاہر ہو جاتا ہے کہ سعودی حکام غلط خیالات کا شکار ہیں اور ان فضول اور بےبنیاد خیالات نے انھیں بہت سے مسائل میں الجھا دیا ہے۔

تقریبا ایک سال سے سعودی عرب نے یمن کے خلاف براہ راست جنگ شروع کر رکھی ہے اور اسے اپنے وحشیانہ ہوائی حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے جمعرات کے روز ایک بار پھر کہا کہ منصور ہادی کی اقتدار میں مکمل واپسی تک یمن میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت جاری رہے گی۔ سعودی عرب شام میں تکفیری - صیہونی گروہ داعش اور دیگر انتہا پسند فرقوں اور گروہوں کی مالی مدد کر کے بھی بشار اسد کو ہٹانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔

سعودی حکام نے تین عشرے قبل بھی اسلامی انقلاب کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی امید پر ایران پر مسلط کردہ جنگ میں عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی حمایت کی تھی جبکہ صدام علاقے کی سلامتی کے لیے ایک براہ راست خطرہ تھا۔

صدام نے ایران پر جارحیت کے چند سال بعد کویت پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت بھی سعودی عرب علاقے میں دہشت گرد گروہوں کے اصلی حامیوں میں سے ہے اور علاقے میں دہشت گردی کے پھیلاؤ میں اس ملک کا تخریبی کردار ناقابل انکار ہے۔

سعودی عرب اسی طرح دنیا میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا باعث بنا ہے اور اس نے اوپیک میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کو انتہائی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

ان اقدامات کا سعودی عرب اور علاقے کو کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ صرف اسرائیلی حکومت کے فائدے میں ہیں۔ عادل الجبیر کے بیانات درحقیقت علاقے میں سعودی حکام کے کشیدگی پیدا کرنے کے اقدامات کا جواز پیش کرنے کی کوشش ہیں۔

ٹیگس