Mar ۱۵, ۲۰۱۶ ۱۶:۱۲ Asia/Tehran
  • ایران کے میزائل تجربات کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس

اقوم متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کے روز امریکہ کی درخواست پر ایران کے بیلیسٹک میزائل کے تجربے کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا۔

امریکی حکام نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ ایران کے میزائل تجربات اشتعال انگیز اور عدم استحکام کا باعث ہیں، اس اجلاس میں اپنے دعوے کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن سلامتی کونسل کا یہ اجلاس ایران کے خلاف کوئی بیان جاری کیے بغیر ختم ہو گیا۔

ایران کی وزارت خارجہ میں بین الاقوامی سلامتی اور سیاسی شعبے کے سربراہ حمید بعیدی نژاد نے ایران کے میزائل تجربات کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے نتیجے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت کو ایک بار پھر سلامتی کونسل پر دباؤ ڈالنے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ میں صیہونی حکومت کے مستقل نمائندے دانی دانون نے اس اجلاس سے قبل، سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران کے ایٹمی تجربات کی مذمت کرے۔

انھوں نے کہا جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی سلامتی کونسل نے امریکہ اور بعض دیگر ارکان کا نقطہ نظر سننے کے بعد ایران کے ایٹمی میزائل کے تجربات کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا اور اپنا اجلاس ختم کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل نے حتی ایک پریس ریلیز بھی جاری نہیں کی کہ جو اس کا سب سے کم اقدام اور موقف ہے۔

اس اجلاس میں حتی امریکہ نے بھی کہ جس نے یہ اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی، ایران کے خلاف کسی بھی طرح کی پابندی لگانے یا کارروائی کرنے کی درخواست نہیں کی۔

میزائل کے شعبے میں ایران کی سرگرمیوں کے واضح و شفاف ہونے اور ان کے قرارداد بائیس سو اکتیس کے منافی نہ ہونے کے پیش نظر اس قسم کے اجلاس کے انعقاد کے لیے امریکہ کی درخواست، اس کے نتیجے سے قطع نظر مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد کی مثبت فضا کے منافی ہے۔

مشترکہ جامع ایکشن پلان کی منظوری کے بعد سلامتی کونسل کی منظور شدہ قرارداد میں ایران کو قانونی اور روایتی فوجی سرگرمیوں سے نہیں روکا گیا ہے۔ زیادہ واضح لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کا مطالبہ دفاعی امور میں بین الاقوامی کنونشنوں اور قوانین کے خلاف ہے۔

اس سلسلے میں دو اہم نکتے موجود ہیں پہلا یہ کہ ایران کبھی بھی ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے درپے نہیں تھا اور نہ ہی ایسا کرے گا اور وہ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی اور مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مطابق اپنے وعدوں کا مکمل احترام کرتا ہے۔

ایران کی میزائل طاقت کے بارے میں دوسرا نکتہ دفاعی شعبے میں ایران کی روایتی ضرورت ہے۔

ایران کی حاکمیت اور ارضی سالمیت کے خلاف آشکارا خطروں کے پیش نظر کہ جن کا گزشتہ برسوں کے دوران مشاہدہ بھی کیا گیا ہے، ایران کا اس وقت کسی بھی دور سے زیادہ ایک جائز اور قانونی ڈیٹرنٹ طاقت کا حامل ہونا ضروری ہے۔

ایران کو موجودہ حالات میں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر اپنے آس پاس کے علاقوں میں خطرات کا سامنا ہے۔

لہذا اسلامی جہموریہ ایران نے اپنی دفاعی ضروریات اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی دفاعی ڈاکٹرائن، ڈیٹرنٹ اور موثر دفاع کی بنیاد پر تیار کی ہے اور یہ فیصلہ امن و استحکام کے ہرگز منافی نہیں ہے۔

جس طرح اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندہ دفتر نے اپنے بیان میں کہا ہے جو لوگ ایران کے میزائل تجربات کے بارے میں شور مچا رہے ہیں انھوں نے خود دو ہزار پندرہ میں تقریبا ایک سو ارب ڈالر کے جدید ترین ہتھیار خلیج فارس کے علاقے میں بیچے اور خریدے ہیں۔

ٹیگس