May ۲۲, ۲۰۱۶ ۱۸:۲۸ Asia/Tehran
  • امریکا کی طرف سے مزید اقدامات کئے جانے کی ضرورت: جواد ظریف

حالیہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران تہران نے یورپ، ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک کے سیاسی و اقتصادی وفود کی میزبانی کی ہے۔ ان وفود کے دوروں کے دوران مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد کے حالات میں اقتصادی اور مشترکہ سرمایہ کاری کے شعبوں میں اہم سمجھوتے ہوئے ہیں۔

جنوری کے اواخر میں ایران پر عا‏ئد پابندیوں کی باضابطہ منسوخی کے چند روز کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے دورۂ پیرس کے بعد یورپی کمپنیوں کے لئے بہت زیادہ امید بندھ گئی تھی جنہوں نے ایران کی پرکشش منڈی کی طرف توجہ دی ہے۔ اس دورے میں پندرہ ارب یورو مالیت کے سمجھوتے ہوئے جن میں ایک سو اٹھارہ ایئربس ہوائی جہاز خریداری کے بڑے سمجھوتے کی طرف خاص طور سے اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کے سمجھوتے جرمنی، اٹلی، آسٹریا، جنوبی کوریا، جاپان اور دیگر ممالک کے ساتھ مختلف دوروں میں ہوئے ہیں۔

ہفتے کے روز بھی نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ایران کے دورے پر تہران پہنچے اور آج (اتوار کے روز) ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی جبکہ افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی پیر کو اعلی سطحی سیاسی و اقتصادی وفد کے ہمراہ تہران پہنچ رہے ہیں جو ایران کے ساتھ تعلقات میں توسیع کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ یہ تعاون کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے اور مشترکہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی مفادات سے اس کا تعلق ہے۔ اسی وجہ سے ان دوروں کے دوران سمجھوتوں پر عمل درآمد کی کوشش ہونی چاہئے لیکن ان سمجھوں توں پر عمل در آمد کے سلسلے میں مالی لین دین اور بینکاری کی راہ میں مشکلات پائی جاتی ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ہفتے کے روز نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ موری میک کالی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہم اس مقام تک نہیں پہنچ سکے ہیں جہاں تک پہنچنا چاہئے تھا اور یہ کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد کے سلسلے میں امریکا کی طرف سے مزید اقدامات کئے جانے کی ضرورت ہے۔ جواد ظریف نے ایران کے ساتھ تجارت کی غرض سے بڑی بڑی کمپنیوں اور بینکوں کی تشویق کے لئے بعض مغربی ممالک کے بیان کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے جو بیان جاری ہوا ہے وہ ایک ایسی سیاسی فضا کا غماز ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ممالک سوچتے ہیں کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی بابت ان کو اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے گزشتہ جمعرات کو اپنے مشترکہ بیان میں اعلان کیا تھا کہ ایران کے ساتھ متعلقہ قوانین و ضوابط کے ساتھ تجارت میں کوئی مشکل نہیں ہے اور غیرملکی بینک اور کمپنیاں ایران کے ساتھ قانونی معاملات سے گریز نہ کریں۔ ایران کے ساتھ بینکاری سے متعلق سرگرمیوں کے بارے میں تشویش پہلے مرحلے میں تو امریکا سے بعض ممالک کے خوف کی وجہ سے ہے جس نے ایران کے ساتھ ڈالر میں لین دین کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ امریکا کا بین الاقوامی ہنگامی اقتصادی اختیارات کا قانون امریکی صدر کو بعض ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو محدود کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ صورت حال جو مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد میں خلل پیدا کرے گی، امریکا پر عدم اعتماد اور تشویش کا باعث بنی ہے۔

اس ضمن میں مزید عملی اقدامات پر ایرانی وزیر خارجہ کی تاکید ایران کے ساتھ تجارت کے خواہاں ممالک کی طرف سے زیادہ ٹھوس اقدامات کی ضرورت کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کیونکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان اور ایران کے ساتھ ہونے والے اقتصادی و تجارتی سمجھوتے ان کے لئے بھی مفید ہیں۔ ان ممالک کو در حقیقت آزاد عالمی تجارت اور ان ممالک کے اقتصادی تعلقات کی راہ میں امریکا کے داخلی قوانین نے جو مشکلات پیدا کی ہیں ان کے مقابل اپنے حقوق اور مفادات کا دفاع کرنا چاہئے نیز قانونی طریقوں اور آزاد عالمی تجارت کے اصولوں کے مطابق ایران کے ساتھ ہونے والے اقتصادی سمجھوتوں پر بغیر کسی تشویش کے عمل در آمد کرنا چاہئے۔

ٹیگس