May ۲۴, ۲۰۱۶ ۱۸:۲۲ Asia/Tehran
  • ہندوستان کے وزیراعظم اور افغانستان کے صدر کی رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات

ہندوستان کے وزیراعظم اور افغانستان کے صدر نے پیر کے روز رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔

ہندوستان کے وزیراعظم اور افغانستان کے صدر نے تہران میں اعلی سطح کے مذاکرات انجام دیے۔ چابہار راستے کے سہ فریقی ٹرانزٹ معاہدے سمیت تعاون کی کئی دستاویزات پر دستخط ان مذاکرات کے نتائج میں شامل تھے۔ افغانستان اور ہندوستان کے رہنماؤں نے اسی طرح رہبر انقلاب اسلامی سے بھی ملاقات کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی سے ملاقات میں فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ افغانستان کے مفادات اور سلامتی کے لیے سنجیدہ کوششیں کی ہیں اور کر رہا ہے اور وہ تمام شعبوں میں افغانستان کی ترقی کو اپنی ترقی سمجھتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات میں بھی ایران اور ہندوستان کے درمیان ثقافتی، اقتصادی اور عوامی تعلقات کے طویل اور تاریخی ماضی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران ہندوستان کے ساتھ کہ جو دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت ہے، تعلقات میں فروغ کا خیرمقدم کرتا ہے اور دو طرفہ معاہدوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں مکمل طور پر سنجیدہ ہے۔

آپ نے اسی طرح مغرب اور امریکہ کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے کسی بھی نام نہاد اتحاد میں شامل نہ ہونے پر مبنی ہندوستانی حکومت کی صحیح پالیسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دہشت گردی کے خلاف حقیقی اور سنجیدہ جنگ ایران اور ہندوستان کے تعاون کا ایک اور میدان ہو سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے ان دو رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں بیانات، علاقے کے ممالک خاص طور پر ہمسایہ ممالک اور ایران کے درمیان تعلقات میں اہم اور کلیدی مسائل کو بیان کرتے ہیں۔

بلاشبہ یہ ملاقاتیں اور ان ملاقاتوں میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات، علاقے کے ممالک کے ساتھ ایران کے سیاسی، اقتصادی، سیکورٹی اور سماجی تعلقات میں ایک نیا باب کھولیں گے؛ لیکن ان تعلقات کو مضبوط بنانے اور ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے راستے میں رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔

دہشت گردی، منشیات، مہاجرین اور مشترکہ سرحدی پانیوں کا مسئلہ ان مسائل میں شامل ہیں کہ جنھیں مشترکہ مفادات اور سیکورٹی کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے۔

دریائے ہیرمند ایران اور افغانستان کی سرحد پر واقع ہے لیکن اس دریا کے پانی کی تقسیم اور اس دریا سے متعلق حقوق کے بارے میں اختلافات موجود ہیں۔ دونوں ملکوں نے دریائے ہیرمند کے پانی سے متعلق انیس سو تہتر میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پانی کے مسئلے پر اختلافات کا تعلق انیسویں صدی سے ہے کہ جب افغانستان پر برطانیہ کا کنٹرول تھا کہ یہ مسئلہ ایک طرح سے استعماری دور کی میراث ہے۔

جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران فرمایا؛ ایران اور افغانستان کے درمیان مہاجرین، پانی، ٹرانسپورٹ اور سیکورٹی جیسے تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا سنجیدگی کے ساتھ اور ایک نظام الاوقات کے تحت جائزہ لے کر انھیں حل کرنا چاہیے۔

جو چیز اہمیت رکھتی ہے یہ ہے کہ ایران اور علاقے کے ممالک کے دو طرفہ اور چند جانبہ تعلقات میں کئی اہم مواقع موجود ہیں کہ جن سے فائدہ اٹھانے پر دونوں ملکوں کے حکام زور دیتے ہیں لیکن اس تعاون کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمد کیا جائے اور ان ملکوں کے حکام ان کی حمایت کریں۔

اس وقت افغانستان نے غیرملکی افواج کی طویل عرصے سے اس ملک میں موجودگی سے سخت نقصان اٹھایا ہے۔ افغانستان کو منشیات کی پیداوار کے دیرینہ چیلنج کا بھی سامنا ہے اور منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے لیے ایک تشویش ناک مسئلہ سمجھا جاتا ہے لیکن جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے امریکہ اور علاقے کے بعض ممالک علاقے کے ممالک کے درمیان تعاون اور ہم دلی نہیں چاہتے ہیں۔

یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب انتہاپسندی، دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے اجتماعی خطروں کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی تعاون کی ضرورت ہے۔ اس تعاون کو مضبوط بنانا بلاشبہ علاقے میں امن و استحکام اور ہمفکری کا باعث بن سکتا ہے۔ افغانستان کے صدر اور ہندوستان کے وزیراعظم سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات اس کلیدی نکتے پر تاکید کرتے ہیں۔

ٹیگس