Jun ۱۶, ۲۰۱۶ ۱۴:۱۴ Asia/Tehran
  • ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں امریکہ کے خلاف ایران کی جانب سے مقدمہ

اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ میں ایران کے سینٹرل بینک کے دو ارب ڈالر ضبط کئے جانے کے سلسلے میں ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں امریکہ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے بدھ کے روز اس خبر کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایران نے مقدمہ دائر کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ امریکہ کے ایران مخالف اس اقدام کی مذمت کی جائے اور ایران کو پہنچنے والے نقصان کا تاوان ادا کیا جائے۔

امریکہ کی سپریم کورٹ نے گذشتہ بیس اپریل کو دہشت گردانہ واقعات کی بھینٹ چڑھنے والے افراد کے لواحقین کی اپیل پر عدلیہ کے دائرے میں ایران کے خلاف دشمنانہ اقدام عمل میں لاتے ہوئے انھیں تاوان کے طور پر ادا کئے جانے کے لئے نیویارک میں ایرانی سینٹرل بینک کی رقومات میں سے دو ارب ڈالر کی رقم ضبط کئے جانے کا فیصلہ سنایا۔

عدالت کے جج نے امریکہ سے باہر دہشت گردانہ واقعات میں ایران کے ملوث ہونے کے بارے میں بلاثبوت و شواہد کئے جانے والے دعوؤں پر تہران کے خلاف تاوان ادا کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ اس کیس میں اپیل دائر کرنے والوں نے ایران پر حزب اللہ لبنان کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ انّیس سو تراسی کے بیروت بم دھماکے میں حزب اللہ کا ہاتھ رہا ہے کہ جس میں متعدد امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

اس کیس میں دیگر بم دھماکوں منجملہ انّیس سو چھیانوے میں سعودی عرب میں الخیبر کے بم دھماکے میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں کے لواحقین کو بھی تاوان ادا کئے جانے کی درخواست کی گئی تھی۔

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے امریکہ کے اس اقدام کو کھلی ڈکیتی قرار دیا۔ گذشتہ مہینے ایران کی مجلس شورائے اسلامی نے بھی ایرانی اثاثے ضبط کئے جانے کے بارے میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے پرردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک بل منظور کر کے حکومت ایران کو اس بات کا پابند بنایا کہ وہ سن ترپن کے کودتا سے لے کر اب تک امریکہ کے مجرمانہ اور دشمنانہ اقدامات کے تحت ایران کو پہنچنے والے نقصانات کے تاوان کا مطالبہ کرے۔

اس بل میں ایران کے خلاف عراق کی صدام حکومت کی مسلط کردہ جنگ میں امریکہ کے ہاتھوں ایران کو پہنچنے والے نقصانات منجملہ خلیج فارس میں ایران کے آئل ٹرمنل کو تباہ کئے جانے نیز ایران کے خلاف امریکہ کی جاسوسی کے نتیجے میں ایران کو پہنچنے والے نقصانات کے تاوان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

ایران اور امریکہ نے اسلامی انقلاب سے قبل انّیس سو پچپن میں سفارتی حقوق اور اقتصادی تعلقات کے بارے میں ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے جو بین الاقوامی قوانین کے تحت اب تک باقی بھی ہے۔ اس معاہدے پر جون انّیس سو ستّاون میں عمل درآمد شروع ہوا تھا اور اس میں ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے لئے ایک قانونی دائرہ وضع کیا گیا ہے۔

اس معاہدے کے آرٹیکل دو کی اکّیسویں شق میں یہ بات ذکر ہے کہ ایران اور امریکہ کی جانب سے دائر کی جانے والی اپیل کا ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کی جانب سے جائزہ لیا جائے گا۔ اس شق کے مطابق کوئی بھی تنازعہ پیدا ہونے کی صورت میں معاہدے پردستخط کرنے والے دونوں فریق، ہیگ کی بین الاقوامی عدالت سے رجوع کریں گے مگر یہ کہ وہ تنازعہ کو کسی اور طریقے سے حل کرنے کے بارے میں مفاہمت کرلیں۔

ایران کے خلاف عراق کی صدام حکومت کی مسلط کردہ جنگ کے دوران خلیج فارس کی فضا میں امریکہ کے بحری جنگی بیڑے کی جانب سے ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرائے جانے کے واقعے کے بعد کہ جس میں اس طیارے کے دو سو نوّے مسافر شہید ہو گئے تھے، ایران نے اسی معاہدے کے تحت امریکہ کے خلاف ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔

ایک اور موقع کہ جب ایران نے امریکہ کے خلاف ہیگ کی بین الاقوامی عدالت سے رجوع کیا نومبر انّیس سو بیانوے کا ہے کہ جب ایران نے انّیس سو ستّاسی و اٹھّاسی میں امریکہ کی جانب سے خلیج فارس میں ایران کی آئل سپلائی لائنوں پر حملے کئے جانے کے سلسلے میں ہیگ کی اس عالمی عدالت میں امریکہ کے خلاف کیس دائر کیا تھا اور اب یہ تیسرا موقع ہے کہ ایران نے امریکہ کے خلاف ہیگ کی بین الاقوامی عدالت سے رجوع کیا ہے۔

علاوہ ازیں ایران اور اسی طرح ایران کے سرکاری اداروں کو امریکی عدالتوں کے مقابلے میں قانونی تحفظ حاصل ہے اس رو سے ایران کے خلاف امریکی عدالت کا یہ اقدام، قانونی تحفظ کے اس معاہدے کی خلاف ورزی بھی شمار ہوتا ہے۔

ایران کے خلاف امریکہ کی نام نہاد عدالت کا یہ اقدام،نہ صرف یہ کہ قانونی جواز سے عاری ہے بلکہ ایک ایسا اقدام بھی ہے جو بین الاقوامی معاہدے کے خلاف سیاسی مقاصد کے تحت عمل میں لایا گیا ہے۔

ایسی صورت حال میں ہیگ کی بین الاقوامی عدالت سے ایران کا رجوع کرنا اس قسم کے اقدامات کا جائزہ لینے کے لئے ایک قانونی طریقہ ہے اور ایران کی جانب سے اس طریقے پر عمل کئے جانے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ تہران، بین الاقوامی اداروں کے ذریعے اپنے حقوق کا دفاع کرنے میں مکمل سنجیدہ ہے۔

البتہ تجربے سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ان اداروں سے کوئی زیادہ توقع بھی نہیں رکھی جا سکتی۔

ٹیگس