Jan ۰۲, ۲۰۱۷ ۱۲:۳۹ Asia/Tehran
  • میانمار میں مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری

میانمار کی حکومت علاقائی اور عالمی دباؤ کی وجہ سے مسلمانوں کی صورتحال پر توجہ کرنے اور ان کے خلاف جاری تشدد کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دوسری طرف انتہا پسند بودھوں اور حکومتی عناصر نے ایک نئی چال چلی ہے جس کی رو سے وہ قانونی طریقے سے روہنگیا مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسی سلسلے میں صوبہ راخین میں شمالی شہر منگدو کی سٹی سامونا کے میئر نے میانمار حکومت کے نسل پرستانہ اقدامات کو جاری رکھتے ہوئے اس شہر میں رہنے کی وجہ سے مسلمانوں پر مزید ٹیکس لگا دیئے ہیں۔ ان سے یہ ٹیکس زور زبردستی وصول کئےجائیں گے۔ انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کو ڈرایا دھمکایا ہے اور فوج اور پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر مسلمان ٹیکس نہ دیں تو انہیں تھانے بلا کر جسمانی ایذائیں پہنچائیں۔ واضح رہے میانمار کے انتہا پسند بڈھسٹ سنہ دو ہزار دو سے مسلمانوں کو صوبہ راخین میں مکمل طرح سے تہس نہس کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ وہ راخین صوبہ کے شہر منگدو میں مسلمانوں کو ہر طرح سے اذیتیں پہنچا رہے ہیں اور انہیں ان کے گھروں سے نکال باہر کر رہے ہیں، ان کی زمینوں کو غصب کرلیتے ہیں اور ان کی فصلوں اور گھروں کو لوٹ لیتے ہیں۔ ادھر منگدو میں حکومت نے اعلان کیا ہےکہ بودھوں کو بسانے کے لئے اس شہر میں سات  بستیاں بنائی جائیں گی۔ادھر حال ہی میں بودھوں کے دہشتگردوں اور فوج کے انتہا پسند عناصر نے شہر منگدو میں مسلمانوں کے گھروں پر حملے کئے یہ واقعہ اس شہر کے ناشافورو علاقے میں پیش آیا ہے۔ واضح رہے بودھوں کا ایک دہشتگرد گروہ ہے جس کا نام نو سو انہتر ہے اور اس کا سرغنہ ایک انتہا  پسند بودھ راہب ہے ناشاقورو گاوں پر بودھوں نے حملے کرکے مسلمانوں کے گھروں کو لوٹ لیا اور ان کی زمینیں غصب کرلیں۔ حال ہی میں اس شہر میں روہنگیامسلمانوں پر خونریز حملوں کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک ملیشیا نے بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب ایک فوجی چیک پوسٹ سے مسلمانوں پر حملے کئے تھے۔ واضح رہے مسلمانوں پر حملوں اور انہیں آوارہ وطن کرنے اور ان کی زمینیں غصب کرنے کی کاروائیاں آج بھی جاری ہیں۔

اس امر کے پیش نظر کہ علاقے اور عالمی سطح پر میانمار میں مسلمانوں پر بودھوں کے ظلم و ستم پر سخت رد عمل دکھایا گیا ہے اور مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کا پرزور مطالبہ کیا گیا ہے، علاقائی اور عالمی برادری کے اس مطالبے کے بعد میانمار کی حکومت اور مقامی حکام نے مسلمانوں کو ان کے وطن سے نکالنے کے لئے نئے نئے ہتھکنڈے تلاش کرلئے ہیں اور وہ نئی نئی چالوں سے انہیں ملک سے نکال رہے ہیں اور ان سے زبردستی نیا ٹیکس لے رہے ہیں البتہ یہ اقدام مسلمانوں کے خلاف ان کے اقدامات میں سے آخری نہ ہوگا بلکہ روہنگیا مسلمانوں پر طرح طرح سے دباؤ جاری رہے گا، روہنگیا مسلمانوں پر بچوں کی تعداد معین کرنے کے سلسلے میں بھی دباؤ ہے۔ یاد رہے میانمار کے روہنگیا مسلمان عام طور سے غریب ہیں اور زراعت کرکے اپنی گذر اوقات کرتے ہیں۔ یہ امکان پایاجاتا ہے کہ وہ شہر سامونا میں ان پر وضع کئےگئے نئے ٹیکس ادا نہ کرپائیں۔ یہ بات بھی بعید نہیں ہے کہ اس صورت میں انتہا پسند بودھ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کے اپنے منصوبہ بند طریقوں پر شدت سے عمل کریں۔بودھوں اور انتہا پسند قوم پرستوں کا ھدف مسلمانوں کی آبادی میں کمی لانا ہے اور یہ کام انہوں نے شہر منگدو سے شروع کردیا ہے۔ اس صوبے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ ہمیشہ سے بودھوں کے ساتھ پرامن زندگی گذارتے آئے ہیں اور دونوں قومیں ایک دوسرے کے مذہب و آئین اور آداب کا احترام کرتی آئی ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں انتہا پسند بودھوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بھرپور منفی پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے تا کہ ان کے خلاف بودھوں کو بھڑکائیں اور مسلمانوں کو ایذا و اذیت  پہنچا کر انہیں ملک سے نکال دیں۔ اسی ھدف کے لئے انتہا پسند بودھ لیڈر آشین ویراتو نے نو سو انہتر نامی ایک دہشتگرد گروہ تشکیل دیا ہے تا کہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا جاسکے۔ ہرچند علاقائی اور عالمی حلقوں نے ہمیشہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بودھوں کے مظالم کی مذمت کی ہے لیکن اس ظلم وستم کو روکنے کےلئے کوئی موثر اقدام نہیں کیا ہے۔ اسی وجہ سے انتہا پسند بودھوں اور فوج اور سرکاری حکام مسلمانوں کے خلاف جرائم اور ان کے اموال لوٹنے میں زیادہ گستاخ ہوگئے ہیں۔

ٹیگس