Jan ۲۸, ۲۰۱۷ ۱۶:۱۹ Asia/Tehran
  • مسلمانوں کے خلاف ٹرمپ کا نیا اقدام

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے " قومی تحفظ کےلئے غیرملکی دہشت گردوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی" کے عنوان سے جاری کردہ ایک حکم نامے پر دستخط کئے ہیں- اس خصوصی صدارتی حکم نامے کے تحت شام، ایران، عراق، سوڈان، لیبیا، یمن اور صومالیہ کے شہریوں کو آئندہ 90 دن تک امریکا میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا-

 اس کے علاوہ امریکا کا ’’ریفیوجی ایڈمیشن پروگرام‘‘ بھی آئندہ ایک سو بیس دن تک کےلئے معطل کردیا گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تازہ ایگزکٹیو آرڈر پر دستخط کردیئے ہیں جس کے تحت سات مسلم ملکوں سے آنے والے پناہ گزینوں کے امریکا میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ٹرمپ کا منصوبہ دوہزار سترہ کے مالی سال میں امریکا آنے والے شامی پناہ گزینوں کی تعداد کم کرکے پچاس ہزار تک کرنا ہے جو مالی سال دوہزار سولہ میں ایک لاکھ دس ہزار تھی-

ٹرمپ نے درحقیقت امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے کی روک تھام پر مبنی اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے کے تعلق سے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے- ٹرمپ کا یہ اقدام ان افراد کو امریکہ میں داخل ہونے سے روکنے کا ایک بہانہ ہے کہ جن کے توسط سے دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دینے کا امکان پایا جاتا ہے- لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ میں حالیہ چند برسوں کے دوران انجام پانے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کے ریکارڈ کے پیش نظر کیا یہ سات ممالک ان کاروائیوں میں ملوث رہے ہیں ؟ کیا ان سات ممالک نے یہ کاروائیاں انجام دی ہیں ؟ یا یہ کہ جن دہشت گردوں نے اس طرح کی کاروائیاں انجام دی ہیں وہ خود امریکہ کے دوست ملکوں کے ہی باشندے تھے- اس کی واضح مثال نائن الیون کے واقعے میں ملوث دہشت گردوں کی ہے، جیسا کہ امریکہ کے سیکورٹی اور خفیہ اداروں نے اعلان کیا ہے کہ نائن الیون کے واقعے میں ملوث انیس میں سے پندرہ افراد کا تعلق سعودی عرب سے تھا- دو دسمبر دوہزار پندرہ کو بھی کیلیفورنیا کے سن برنارڈینو کے بھی  دہشت گردانہ واقعے میں ایک پاکستانی جوڑا ملوث تھا ، یا پھر بارہ جون دوہزار سولہ کو اورلانڈو میں ہونے والا دہشت گردانہ حملہ، کہ جس میں پچاس لوگ ہلاک ہوگئے تھے، ایک افغان نژاد امریکی نے کیا تھا- اس طرح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس حکم نامے کو جاری کرنے کا ٹرمپ کا اصل مقصد ، ان ملکوں کے باشندوں پر مزید دباؤ ڈالنا ہے جن کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں- اسی بناء پر یہ سات ممالک امریکی حکمرانوں کی نظر میں دہشت گردی کے حامی ممالک تصور کئے جاتے ہیں اوران کو امریکہ کے خلاف خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ہنگامی حالت کے قانون کا اعلان کیا گیا ہے-

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ یورپ میں حالیہ دنوں میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں سے، ٹرمپ کو مسلمان مخالف منصوبوں پر عملدرآمد کا ایک بہانہ ہاتھ آگیا ہے - ٹرمپ نے امریکہ کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے سے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ میں مسلمانوں کی آمد پر روک لگا دیں گے- جس کے خلاف خود امریکہ میں اور عالمی سطح پر وسیع ردعمل سامنے آیا تھا- اس وقت ٹرمپ کی جانب سے اس حکم نامے پر دستخط کرنے کے ساتھ ہی امریکہ میں مسلمان اور اسلام مخالف اقدامات میں تیزی آنے سے متعلق تشویش بڑھ گئی ہے- اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ٹرمپ کے دعووں کے تعلق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ صرف معدودے چند مسلمان ہیں جو انتہا پسند ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت خاص طور پر جو مسلمان امریکہ میں ہیں ، وہ دہشت گردوں کی ان دہشت گردانہ کاروائیوں کے شدت سے مخالف ہیں- اس حقیقت کے پیش نظر کیا یہ بات صحیح ہے کہ صرف معدودے چند افراد کی جانب سے تشدد پسندانہ کاروائیاں انجام دینے کے باعث ، کہ جن کا شمار مسلمانوں میں ہوتا بھی نہیں اور وہ نام نہاد مسلمان ہیں،  تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قراردے دیا جائے اور ان سب کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ اپنایا جائے- یہ اقدام، کہ جسے ٹرمپ نے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے یعنی امریکہ میں مسلمانوں کے داخل ہونے پر پابندی،درحقیقت امریکہ اور امریکہ سے باہر تمام مسلمانوں کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے-               

ٹیگس