Mar ۱۵, ۲۰۱۷ ۱۶:۲۵ Asia/Tehran
  • افغان فوج کی تقویت پر نیٹو کی تاکید

نیٹو تنظیم کے سیکریٹری جنرل نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان کی حکومت اور فوج کو اس ملک میں سیکورٹی کی فراہمی کے لئے اپنی توانائی میں اضافہ کرنا چاہئے کیوں کہ وہ لمبی مدت تک نیٹو کی فوجی کاروائیوں پر بھروسہ نہیں کرسکتی-

نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینس اسٹولٹنبرگ نے  کہا ہے کہ افغانستان کو بہت زیادہ مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اور بہت سے دہشت گرد گروہ اس ملک میں سرگرم ہیں لیکن حقیقی خطرہ اس ملک میں ابھی بھی طالبان ہیں - اگرچہ ینس نے یہ دعوی کیا ہے کہ نیٹو نے افغانستان میں بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن سیکورٹی چیلنجوں سے مقابلے کے لئے افغانستان کی حکومت اور فوج سے اپنی صلاحیتوں میں اضافے کی ان کی درخواست سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ افغانستان میں نیٹو کی فوجی کاروائیاں ناکام رہی ہیں جس کے باعث اس تنظیم کو عالمی سطح پر ہدف تنقید بنایا گیا ہے- امریکہ کی جانب سے افغانستان پر قبضے کے تقریبا دوسال بعد نیٹو نے یورپ سے باہر اپنے پہلے مشن کے طور پر امریکہ کے فوجی بازو کی حیثیت سے افغانستان میں قدم رکھا -

امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں دہشت گردی سے مقابلے اور سلامتی کے قیام کا نعرہ بلند کیا اوراسی تناظر میں افغانستان میں تقریبا ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد اپنے فوجی افغانستان میں تعینات کردیئے- لیکن افغانستان میں نیٹو کی فوجی کارکردگی کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس تنظیم کا فوجی کارنامہ نہ صرف قابل دفاع نہیں ہے بلکہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے اعتبار سے مکمل طور پر شکست خوردہ ہے- دہشت گرد گروہوں کے خونریز حملوں کا جاری رہنا ، داعش دہشت گرد گروہ کا وجود میں لایا جانا، منشیات کی اسمگلنگ اوراس کی پیداورمیں اضافہ ، افغانستان کی سرحدوں پر بڑھتی ہوئی بدامنی ، افغان فوج کو فوجی سازو سامان سے لیس نہ کرنا خاص طور پر اس ملک کی فضائیہ کی صورتحال سے بے توجہی، وہ مسائل و مشکلات اور سیکورٹی چیلنجز ہیں جن کا نیٹو افواج کی موجودگی کے باوجود، افغانستان کو سامنا ہے-

اسی سبب سے روس کی حکومت نے نیٹو سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی کارگردگی کی رپورٹ  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کرے تاہم روس کی اس درخواست پر نیٹو نے کوئی توجہ نہیں دی ہے- ان حالات میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل کو افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کی توجیہ کے لئے، مشکل کا سامنا ہے- کیوں کہ نیٹوکے رکن ملکوں کی رائے عامہ، افغانستان میں نیٹو کی کارکردگی اور فوجی موجودگی کے حوالے سے مثبت کارنامے پیش کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے تاہم  نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینس اسٹولٹنبرگ اسے پیش کرنے سے عاجز و ناتواں ہیں- اس وقت افغان فوجیوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے جنگی محاذوں پر یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ اپنے ملک کے اقتدار اعلی اور خودمختاری کے تحفظ اور دہشت گردوں سے مقابلے کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہیں-

 ان فورسیز کے ساتھ ہی جیسا کہ ایک جہادی کمانڈر اسماعیل خان نے تجویز پیش کی ہے، جہادی فورسیز بھی دہشت گردوں سے مقابلے کے لئے میدان میں اترسکتی ہیں اس بنا پر افغانستان کی فوج اور حکومت، ملک کی سلامتی کے لئے داخلی افواج پر بھروسہ کرسکتی ہے اور اسے غیرملکی افواج کی ضرورت نہیں ہے اور بلا شبہ علاقے کے ملکوں اور بین الاقوامی حلقوں کی جانب سے فوجی امداد پیش کئے جانے کی صورت میں افغانستان کی فوج اور پولیس کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے- لیکن اس لحاظ سے کہ امریکہ کا مقصد علاقے میں افغانستان کو اپنا فوجی اڈہ بنانا ہے اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینا ہے

بنابریں امریکہ نہ صرف افغانستان کی پولیس اور فوج کو مضبوط بنانے اور اسے فوجی سازوسامان سے لیس کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ اس مسئلے میں دیگر ملکوں کی مشارکت کی راہ میں بھی رکاوٹ بنا ہوا ہے- جبکہ افغانستان میں جہادی کمانڈروں اور رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگراس ملک کے صدر اشرف غنی  داخلی گنجائشوں سے استفادے اور دیگرملکوں کے ساتھ فوجی تعاون کے لئے امریکہ کی مخالفت کا بند توڑ دیتے ہیں تو یہ چیز افغانستان کی فوج اور پولیس کی صلاحیتوں میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے-              

ٹیگس