Mar ۱۵, ۲۰۱۷ ۱۶:۲۶ Asia/Tehran
  • سعودی عرب کے وزیر دفاع کا دورہ امریکہ، ایران مخالف پروپگنڈوں میں اضافہ

سعودی عرب نے ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنے پروپگنڈوں کو وسیع کرنے پر مزید توجہ دی ہے- اسی تناظر میں سعودی عرب کے وزیر دفاع محمد بن سلمان نے واشنگٹن کے اپنے دورے میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات اور مذاکرات انجام دیئے ہیں۔

ان مذاکرات میں دونوں ملکوں نے بہت سے اقتصادی مسائل کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ہے جن میں امریکہ میں سعودی عرب کی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نیز سعودی عرب کی منڈی میں داخل ہونے کے لئے امریکی کمپنیوں کے بڑے اور غیر معمولی مواقع فراہم کرنا ہیں- در ایں اثنا بعض ذرائع منجملہ روئٹرز نے کہا ہے کہ ان مذاکرات کا ایک اصلی محورعلاقے میں ایران کو خطرہ ظاہر کرنے پر مبنی فریقین کا اجماع ہے- روئٹرز نے لکھا ہے کہ سعودی عرب کے ولیعہد کے جانشین کے سینئر مشیر نے اپنے بیان میں اس بارے میں کہا ہے کہ دونوں فریق کے اجلاس سے صورتحال اپنے راستے کی جانب لوٹ آئے گی اور سیاسی ، فوجی، سیکورٹی اوراقتصادی میدانوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوگی - ریاض کے حکام ٹرمپ حکومت کے رویوں کے سبب ، اس سفر کے نتائج سے بہت زیادہ پرامید ہیں-

اس کے ساتھ ہی ریاض کے حکام امریکہ کی توجہ مبذول کرانے اور مزید حمایتیں حاصل کرنے کے لئے تین مسائل پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں-  پہلا مسئلہ علاقے کی تبدیلیوں میں سعودی عرب کے کردار کو فعال اور مثبت  ظاہر کرنا ہے- سعودی عرب کی کوشش ہے کہ یمن کے خلاف فوجی اقدام کو جو ایک کھلی جارحیت ہے،  علاقے میں امن و امان قائم کرنے کی اسٹریٹیجی کے طور پر ظاہر کرے- دوسرا مسئلہ علاقے میں ایران کو خطرہ ظاہر کرنا ہے اور واشنگٹن میں محمد بن سلمان کے مذاکرات کا ایک اہم موضوع بھی یہی تھا - تیسرا مسئلہ کہ جس پر سعودی عرب نے توجہ مرکوز کی ہے صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ملکوں کے تعلقات کا معمول پر لایا جانا اور امریکہ کو یہ اطمئنان دلانا ہے کہ علاقے میں اسرائیل کی پالیسیوں کی مخالفت نہیں ہو رہی ہے- اسرائیلی وزیر جنگ اویگڈر لیبرمین کا حالیہ بیان کہ جس میں اس نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کی ہم آہنگی میں اضافہ ہوا ہے اسی مسئلے کی تصدیق ہے-

امریکہ سے ہتھیاروں کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کرنا بھی ایک اور آپشن ہے کہ جسے سعودی عرب نے اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے تاکہ اس طریقے سے اربوں ڈالروں کے ہتھیاروں کی خریداری کے طور پر ٹرمپ کے تجارتی اہداف کو عملی جامہ پہنائے- فوجی سازوسامان کی دیگر ممالک کو فروخت کے معاملات کی نگرانی کرنے والی پینٹاگون کی ڈیفنس سیکورٹی کوآپریشن ایجنسی کے مطابق امریکہ نے دوہزار نو سے اب تک سعودی عرب کو ایک سو پندرہ ارب ڈالر کے، اور خلیج فارس کے دیگر ملکوں کو مجموعی طور پر تقریبا دو سو ارب ڈالر کے انواع و اقسام کے ہتھیار فروخت کئے ہیں- سعودی عرب ایسی حالت میں اس خطرناک کھیل میں شامل ہوگیا ہے کہ اس کی جارحانہ پالیسیاں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں-

جب علاقے میں سعودی عرب کی پالیسیوں کے بارے میں ہم بات کرتے ہیں تو بلاشبہ ایک ایسے مسئلے کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں کہ جو بہت زیادہ پیچیدہ ہے لیکن امریکہ کا نقطہ نگاہ علاقے کی پالیسیوں کے بارے میں کبھی بھی علاقے کے مفادات اور اجتماعی امن و سلامتی کے لئے نہیں رہا ہے- امریکہ کی پالیسی علاقے میں بحران پیدا کرنا ہے کہ جس کا بظاہر اختتام نہیں ہے- اس طرح کی صورتحال بہرصورت علاقے میں سعودیوں کی تفرقہ اندازی کی پالیسیوں کا ما حصل بھی ہے- ریاض کے حکام اس وقت یہ جانتے ہیں کہ وہ سفارتکاری کے میدان میں جدت عمل ، را‍ئے عامہ میں مقبولیت اور ڈپلومیسی ان سب سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اب جبکہ پٹرو ڈالروں سے خزانہ خالی ہوچکا ہے اور ان کوعلاقائی منصوبوں میں پے در پے شکست ہوئی ہے اور ان کی داخلی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے ان حالات میں وہ ٹرمپ کے قریب ہوکر علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی پوزیشن محفوظ رکھنے لئے کوشاں ہیں، تاہم اس پالیسی کے کامیاب ہونے کے تعلق سے ٹھوس شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں-

ٹیگس