Mar ۱۸, ۲۰۱۷ ۱۵:۴۲ Asia/Tehran
  • افغانستان اور روس کے تعلقات

افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کا دورہ ماسکو ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعاون میں فروغ لانے کی کوشش کررہے ہیں۔

حنیف اتمر نے ماسکو میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات میں کہا کہ افغانستان اور روس مشترکہ مفادات رکھتے ہیں اور ماسکو افغانستان میں دہشتگردی کے مقابلے، انسداد منشیات اور امن و سلامتی کی برقراری میں مدد کرسکتا ہے۔ لاوروف نے بھی اس ملاقات میں کہا کہ ماسکو افغانستان کے بحران کو حل کرنے اور افغانستان کے مختلف دھڑوں منجملہ طالبان سے امن مذاکرات کو نہایت اہمیت دیتا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان کی حکومت ایسے عالم میں روس سے تعلقات کی خواہاں ہے کہ سابق سوویت یونین کی سرخ فوج نے انیس سو اناسی میں افغانستان پر لشکر کشی کرکے دس لاکھ افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ افغان عوام کے نزدیک روس افغانستان میں دوبارہ قدم نہیں رکھ سکتا کیونکہ افغان عوام اس سے نہایت متنفر ہیں۔ شاید اسی وجہ سے روس نے گزشتہ پندرہ برسوں میں صبر کی پالیسی اپنائی تھی لیکن افغانستان میں داعش کے ظہور اور شمالی علاقوں میں بھی جنگ کے پھیلنے کے بعد قفقاز اور مرکزی ایشیا تک دہشتگردی کے  پھیلنے سے تشویشیں بڑھ گئی ہیں اور روس کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ طالبان کی حمایت میں افغانستان کے سیاسی میدان میں اتر جائے۔ اس سے قبل روس نے طالبان کے خلاف افغانستان کو ہتھیار فراہم کئے تھے لیکن اس نے اپنا موقف بدلتے ہوئے سہ فریقی اجلاس میں، جو ماسکومیں پاکستان اور چین کی شراکت سے ہوا تھا، طالبان کی حمایت کی تھی جس پر افغانستان نے منفی رد عمل دکھایا تھا۔ افغانستان میں روس کے روایتی اثر ونفوذ کے پیش نظر، جو کمیونسٹ پارٹیوں کے سہارے جاری تھا، افغانستان میں روس کے کردار کو خواہ وہ منفی ہو یا مثبت ہو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اسی وجہ سے سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے پہلے دورہ صدارت میں روس کا سفر کیا تھا تا کہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی موجودگی کے بارے میں روس کو اطمینان دلاسکیں۔اس وقت حکومت افغانستان اس کوشش میں ہے کہ روس بھی افغانستان کے امور میں شریک ہوسکے اور اس کی شراکت افغانستان کی ترجیحات کے مطابق ہو اس کے علاوہ کابل یہ چاہتا ہےکہ روس، افغان حکومت کے چینل کے ذریعے ہی افغانستان کے امور میں شرکت کرے۔ اسی وجہ سے حکومت کابل نے حنیف اتمر کے دورہ ماسکو کے موقع پر روس سے سرکاری طور پر مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے ایک سو بیس اقتصادی اور سائنسی مراکز کی تعمیر نو میں شرکت کرے۔ افغانستان میں روس کے سفارتخانے نے اعلان کیا ہے کہ ان میں بہت سے مراکز روس کے تعاون سے بنائے گئے تھے اور روس کی مدد سے ان کی تعمیر نو کی جاسکتی ہے۔ ان میں کابل کے پالی ٹیکنک کالج اور سالنگ سرنگ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ روس کے نائب وزیر انرجی نے حال ہی میں کہا تھا کہ روس کی تیس کمپنیاں افغانستان کے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔ افغانستان کی حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ملک کے مختلف منصوبوں میں روس کی زیادہ سے زیادہ شرکت منجملہ فوجی میدان میں اس کا تعاون افغانستان میں امن و سلامتی کی برقراری میں مدد دے سکتا ہے کیونکہ افغانستان کے بحران میں ملوث ممالک اگر افغانستان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو وہ اپنے اموال اور سرمائے کی حفاظت کے لئے افغانستان میں امن و سلامتی کی برقراری میں مدد کرنے لئے بھی مجبور ہوجائيں گے۔ اسی وجہ سے کابل حکومت علاقے اور عالمی سطح پر اہم ملکوں سے اپنے تعلقات میں توازن لانے کی فکر میں ہے تا کہ اپنی پالیسیوں کے حق میں اعتماد سازی کرکے ان کی تخریبی رقابت کو کم سے کم کرسکے۔ اس بات میں کسی طرح کا شک نہیں ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی اور عوام کی نفرت افغانستان میں رول ادا کرنے کےلئے روس کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ان حالات میں کابل حکومت سے ہٹ کر روس کا طالبان سے تعاون کرنا اس بات کا سبب بنا ہے کہ کابل، افغانستان میں  اثر ورسوخ رکھنے والے ملکوں کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی وسیع سازشوں اور کلاسیکل جنگ سے سخت تشویش میں مبتلا ہوجائے۔اسی بنا پر افغانستان کی حکومت اپنے ملک میں روس کے کردار کی حمایت کرکے تعمیر نو کے میدان میں روس کے کردار کو اعتبار بخشنا چاہتی ہے۔

 

ٹیگس