Mar ۲۳, ۲۰۱۷ ۲۰:۲۱ Asia/Tehran

شام کی وزارت خارجہ نے داعش مخالف نام نہاد امریکی اتحاد کی جارحیتوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں امریکی قیادت والے بین الاقوامی اتحاد کے ہاتھوں بے گناہ عام شہریوں کا قتل عام بند کرانے کے لئے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے-

شام کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے سربراہ کے نام علیحدہ علیحدہ خط میں تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ نام نہاد داعش مخالف امریکی اتحاد کے لڑاکا طیاروں نے شام کے شہر رقہ کے منصورہ ٹاؤن میں ایک اسکول پر بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں ایک عورت سمیت بتیس سے زائد بچے جاں بحق اور دسیوں عام شہری زخمی ہوئے ہیں اور یہ اسکول بھی تباہ ہوگیا ہے-  اس سے پہلے بارہ مارچ کو امریکی طیاروں نے، شام کے شہر حلب کے نواحی علاقے مسکنہ پر بمباری کی تھی جس میں دس عام شہری مارے گئے تھے۔ اس سے محض دو روز قبل امریکی طیاروں نے رقہ کے مطاب الراشد ٹاون پر بمباری کرکے، چھے عورتوں اور آٹھ بچوں سمیت ، تین عام شہریوں کو خاک و خون میں نہلا دیا تھا۔

عالمی اداروں کی جاری کردہ رپورٹوں کے مطابق نام نہاد داعش مخالف اتحاد، دہشت گردوں کے خلاف حملوں کے بجائے، عام شہریوں، شامی فوجیوں اور بنیادی تنصبات کو نشانہ بنا رہا ہے۔  داعش، جھۃ النصرہ اور بعض دیگر دہشت گرد گروہوں کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے علاوہ، امریکی اتحاد کے اس قسم کے جارحانہ حملے شام میں افراتفری پھیلانے اور اسے تباہ کرنے کے مقصد سے انجام پا رہے ہیں- امریکہ، شام کی سرزمین پر براہ راست فوجی کاروائی کرکے یا داعش مخالف نام نہاد اتحاد کے ذریعے، مختلف طریقوں سے شام کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی کر رہا ہے- یہ ایسے میں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام میں کاروائی کرنے یا اپنے فوجی تعینات کرنے کے مقصد سے شام کی حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا ہے اور داعش مخالف امریکی اتحاد کی سرگرمیوں سے متعلق بھی کوئی سمجھوتہ طے نہیں پایا ہے اور نہ ہی شام کے حکام نے امریکی حکومت سے اس طرح کی کوئی درخواست کی ہے-

کسی بھی ملک میں فوجی کاروائی کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر شام میں داعش مخالف نام نہاد اتحاد کی تشکیل کے لئے امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما کے اقدام کے پیش نظر، بین الاقوامی سطح پر اس قسم کے اقدامات جاری ہیں جن سے عالمی امن و صلح کو شدید خطرات لاحق ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں، شام میں امریکہ کی مداخلت پسندی میں مزید شدت آئی ہے- بلاشبہ ہر وہ اقدام جو ہٹ دھرمانہ، بین الاقوامی قوانین کے دائرے سے باہر اور ملکوں کے اقتدار اعلی کے احترام کے بغیر ہو، ان ملکوں کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے- داعش کا بہانہ، شام کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی اور شام میں امریکہ کے روز افزوں جنگی جرائم اور اس ملک کے عوام کے قتل عام کی پردہ پوشی نہیں کرسکتا -

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ امریکی حکام شام اور عراق میں سیف زون قائم کرنے جیسے پر فریب منصوبے تیار کرکے دہشت گردوں کی حمایت کے لئے عراق اور شام میں زیادہ سے زیادہ مداخلت کی کوشش میں ہیں تاکہ دہشت گردوں کو مکمل شکست و ناکامی سے دوچار ہونے سے بچا سکیں- قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران شام میں دہشت گردوں کو پے در پے شکست ملی ہے خاص طور پر حال ہی میں حلب میں دہشت گردوں کو جو شکست ہوئی اور جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کا اس علاقے سے صفایا ہوگیا، اس کے بعد سے شام میں دہشت گردوں کی مکمل نابودی کے عمل میں تیزی آئی ہے اور یہ مسئلہ دہشت گردوں کے حامی ملکوں منجملہ امریکہ کے لئے بہت زیادہ تشویش کا باعث بنا ہے، اسی لئے داعش مخالف اتحاد اپنے ایجنٹوں کی جان بچانے کے لئے عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے-

بہرحال شام کے کیمپوں، اسکولوں اور تعلیمی مراکز کو نشانہ بنانے کے امریکی اقدامات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کوئی بھی ایسی امن کی جگہ باقی نہیں بچی ہے جہاں کے عام شہری امریکہ کے جارحانہ حملوں سے محفوظ ہوں- شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں جنیوا مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے کے موقع پر شام میں نام نہاد داعش مخالف اتحاد کے حملوں میں شدت، علاقے میں امریکہ کی شر پسندانہ پالیسیوں کی غماز ہے- شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں امن مذاکرات انجام پانے کے لئے جو سیاسی ماحول پیدا ہوا ہے اسے امریکی قیادت والا اتحاد درہم برہم کرنے میں کوشاں ہے اور اب اس میں کوئی شک بھی باقی نہیں رہ گیا ہے کہ شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر جو کوششیں انجام پا رہی ہیں انہیں سبوتاژ کرنے کی امریکی اتحاد کی کوششیں اب پیچیدہ اور خطرناک مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں-

ٹیگس