Apr ۲۲, ۲۰۱۷ ۱۶:۵۸ Asia/Tehran
  • سعودی شہزادے کا ایران مخالف بے بنیاد دعوی

امریکہ ان دنوں ایران کے خلاف ماحول تیار کرنے میں لگا ہوا ہے اور اس دوران سعودی عرب کے حکام کی جانب سے بھی ایسی خبریں سنائی دے رہی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی حکام اس خیال باطل میں مبتلا ہیں کہ وہ ٹرمپ کی جانب سے پیدا کردہ ماحول سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

مغرب اور سعودی عرب سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے حالیہ دنوں کے دوران اپنی سب سے بڑی خبر امریکی وزیر جنگ کے ایران سے متعلق بیانات کو قرار دیا ہے۔ سعودی عرب کے ولیعہد کے جانشین اور وزیر جنگ محمد بن سلمان نے بھی امریکی وزیر جنگ کی آواز میں آواز ملانے کی کوشش کی ہے۔ یہ سعودی شہزادہ اس گمان باطل میں مبتلا ہے کہ حالیہ چند عشروں کے حالات کی شناخت کی صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ اور پختگی کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس نے خطے کی ابتر صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ اسلامی انقلاب دہشت گردی اور انتہا پسندی کے وجود میں آنےکا سبب بنا ہے۔  اس کے ساتھ اس سعودی شہزادے نے کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ یہ ہےکہ اس صورتحال کا خاتمہ ہونا چاہئے اور معاشرتی ترقی پر توجہ دی جانی چاہئے۔

سعودی شہزادے کے اس دعوے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ خطے کی صورتحال سے بالکل نابلد ہے۔ البتہ اس کی یہ ناواقفیت ایک فطری چیز ہے کیونکہ ایک تو اس کی عمر کم ہے اور دوسرے ناتجربہ کار بھی ہے۔ اس لئے اسے ایسے موضوعات پر بات ہی نہیں کرنی چاہئے۔ بہرحال اس کی کوششیں اس اعتبار سے توجہ طلب ہیں کہ ایسا نظر آتا ہےکہ اس نےجھوٹ بولنے، دوسروں پر الزام لگانے اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے کا طریقہ بہت اچھی طرح سے سیکھا ہے۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس سعودی شہزادے کی نظر میں اسلامی انقلاب اور اس نسل  پرستانہ انتہا پسندی اور دہشت گردی  کے درمیان کونسی قدر مشترک پائی جاتی ہے جس کی ترویج سعودی عرب کے درباری مفتی اور سعودی بادشاہت کو قائم کرنے والے کر رہے ہیں۔ آج سب لوگ حتی امریکہ کے دورے سے واپس آنے والا یہ شہزادہ بھی اس بات سے آگاہ ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش کے اسلام مخالف افکار و نظریات کی جڑ وہابیت اور سعودی عرب کے مفتی ہیں۔ ان مفتیوں کے فتووں کی وجہ سے دنیا میں اسلام کی تصویر غلط انداز میں پیش کی گئی ہے اور شام، عراق، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ سعودی حکام اس وقت دلدل میں دھنس چکے ہیں اور وہ اس سے باہر نکلنےکے لئے جس قدر زیادہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اتنا ہی زیادہ اس میں دھنستے جا رہے ہیں۔ سعودی حکام کو بے بنیاد لفاظی اور بیان بازی سے کام لینے کے بجائے اپنے ماضی اور حال پر نظر ڈالنی چاہئے، ان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور یہ گندا کھیل کہاں تک کھیل سکتے ہیں۔

محمد بن سلمان اسلامی انقلاب کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور انھوں نے اس پر انتہا پسندی کا الزام لگا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ سعودی حکام اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ یمن کو بحران سے نجات دینا چاہتے ہیں لیکن وہ فاسفورس بموں اور ممنوعہ ہتھیاروں کے ذریعے یمنی عوام کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں اور انہوں نے یمن کے خلاف جنگ کے لئے ایک اتحاد بھی تشکیل دے رکھا ہے۔ سعودی حکام اپنی نااہلی کی وجہ سے بحران کو وجود میں لائے ہیں جس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بھی کم ہوگئی ہیں۔ سعودی عرب کے حکام سیاسی کھیل، فوجی مہم جوئی اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے میں اس قدر غرق ہو چکے ہیں کہ اب ان کے پاس جھوٹ بولنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں  ہے۔ اسلامی انقلاب شروع سے لے کر اب تک کبھی بھی ملت اسلامیہ کے درمیان انتہاپسندی، تشدد اور فرقہ واریت کو ترویج دینے کے لئے کوشاں نہیں رہا ہے۔ اسلامی انقلاب تسلط پسندی کے مقابلے، عزت اور خودمختاری کے راستے پر گامزن ہے اور اسلامی انقلاب کے گرویدہ افراد درحقیقت ایسے افراد ہیں جو اس انقلاب کا صحیح ادراک رکھتے ہیں۔ البتہ اس سعودی شہزادے جیسے بعض افراد ایسے بھی ہیں جن کی نظر میں سیاسی ترقی کا دائرہ امریکہ کی حمایت کے حصول اور خطے میں جنگوں کی آگ بھڑکانے کے لئے ہتھیار خریدنے کے عمل تک محدود ہے۔ سعودی عرب کے ولیعہد کے جانشین محمد بن سلمان تیل سے مالامال اس ملک میں تبدیلی لانے کے مقصد سے اس عہدے پر براجمان ہوئے ہیں اور وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے لیکن ان کے غیر سنجیدہ افکار اور اقدامات سے اس کی نفی ہوتی ہے۔

ٹیگس