Apr ۲۳, ۲۰۱۷ ۱۷:۲۴ Asia/Tehran
  • تکفیری عقائد اور سلفیت کے خطرات سے متعلق کویت کا اعتراف

کویت کے وزیر مذہبی امور نے خلیج فارس کے عرب ملکوں کے عوام کے درمیان دہشت گردانہ افکار کی ترویج کو ان ملکوں کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔

کویت کے وزیر مذہبی امور محمد الجبری نے سلفی اور انتہا پسندانہ افکار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی مذہبی امور کی وزارتوں کو چاہئے کہ سخت اور غلوآمیز فتووں کے خلاف، کہ جو ان دنوں ان ملکوں کے لئے ایک مشکل میں تبدیل ہوگئے ہیں ، ڈٹ کر مقابلہ کریں- کویتی گھرانوں نے اس ملک کی وزات مذہبی امور کو خطوط ارسال کرکے اپنے فرزندوں کے درمیان داعش دہشت گرد گروہ کے افکار کے اثر و رسوح پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس سلسلے میں حکام سے ٹھوس قدم اٹھائے جانےکا مطالبہ کیا ہے۔ یہ تشویش ایسی حالت میں ہے کہ خلیج فارس کے عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں شام اور عراق میں دہشت گردوں کی مالی اور فکری حمایت میں براہ راست کردار ادا کیا اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے- اس سے قبل کویت نے عراق اور شام جیسے پڑوسی ممالک میں دہشت گردوں کو روانہ کئے جانے اور ان کے سفر پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے لئے بین الاقوامی تعاون پر تاکید کی تھی۔

بلا شبہ تکفیری اور سلفی عقائد کی جن کی ماہیت ہی انتہاپسندی ہے ، علاقائی اور عالمی سطح پر ایک ٹھوس خطرے میں تبدیل ہوچکے ہیں اور عملی طور پر عالمی امن و صلح کو خاص طور پر حالیہ برسوں میں خطرات سے دوچار کردیا ہے- سعودی عرب کے اندراور باہر اس ملکی سرگرمیوں پر نظر ڈالنے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ علاقے اور دنیا کے بیشتر دہشت گرد اصالتا سعودی ہیں اور یا سعودی عرب کے وہابی رجحانات سے متاثر ہیں اور انہیں آل سعود کی مالی حمایت بھی حاصل ہے- وہابیت ، دہشت گردوں کے وجود میں آنے کا مرکز ہے۔ طالبان سے لے کر داعش تک کے مختلف انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کی نظریاتی بنیاد ، وہابیت ہی ہے۔ سعودی عرب وہابیت اور سلفی فرقے کی ترویج کرنے والے ملک کے طور پر دہشت گردوں کو وجود میں لانےاور ان کو دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھیجنے کا گڑھ ہے۔ داعش ، القاعدہ اور طالبان سمیت مختلف دہشت گرد گروہوں میں سعودی عرب کے شہری وسیع پیمانے پر شامل ہیں اور ہر دہشت گردانہ کارروائی میں سعودی عرب کے ہاتھ واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

سعودی عرب کی جانب سے دہشت گردی کی مختلف صورتوں کی نظریاتی اور فکری حمایت ، اس حکومت کے بامقصد اقدامات اور منظم پلاننگ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حمایت ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران سعودی عرب کے اقدامات کا نتیجہ وہابیت، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پھیلاؤ کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ حقیقی اسلام کے دفاع کے نام پر بظاہر اسلامی ، لیکن حقیقت میں انتہا پسند گروہ خالص محمدی اور رحمانی اسلام کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ طالبان اور القاعدہ حالیہ برسوں کے دوران اسلام کے نام پر اسلام مخالف اقدامات انجام دے رہے ہیں اور وہ وہابیت اور سلفیت کے سہارے مختلف اسلامی ممالک کے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ داعش، جبھۃ النصرۃ ، القاعدہ اور طالبان کی نظریاتی بنیاد سعودی عرب کی وہابیت ہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک گروہ اسی طریقے کے مطابق اپنے منصوبے پر عمل کرتا ہے جو اس نے سعودی عرب کے مدارس میں سیکھا ہوتا ہے۔ ان انتہاپسند اور دہشت گرد گروہوں کے اقدامات کا پہلا نتیجہ اسلامی دنیا میں اختلافات پیدا ہونے اور دوسرا نتیجہ مسلمانوں کے دشمنوں کی خوشی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

سعودی عرب نے اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد کے بجائے اسرائیل اور امریکہ سمیت دشمنوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے مختلف اسلامی گروہوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے اور وہابی نظریات کا سہارا لیتے ہوئے اس نے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ اسلام دشمنوں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے حقیقی مجاہدین کو نشانہ بنا رکھا ہے۔  وہابیت کا نتیجہ اسلامی دنیا میں تفرقہ ڈالنا اور بظاہر اسلامی گروہ تشکیل دینا ہے۔ سعودی عرب یہ اقدام خالص اسلام کے مقابلے میں سیاسی اسلام یا امریکی اسلام وجود میں لانے سے متعلق مغرب خصوصا امریکہ کی کوشش کے دائرہ کار میں انجام دے رہا ہے۔ بہرحال خلیج فارس کے عرب ملکوں میں اس طرح کی صورتحال سے بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے اور کویت کے مذہبی امور کی جانب سے دہشت گردانہ عقائد سے لاحق خطرات کے بارے میں انتباہ اور ساتھ ہی آل سعود کی جانب سے سلفی اور تکفیری پالیسیوں کی ہمراہی پر پشیمانی کی بھی غمازی ہوتی ہے۔

ٹیگس