Apr ۲۴, ۲۰۱۷ ۱۶:۴۸ Asia/Tehran
  • افغانستان میں فوجی چھاؤںی پر طالبان کے حملے پر ردعمل

افغانستان کے صوبہ بلخ میں مزار شریف کے نزدیک فوجی چھاؤنی پر گروہ طالبان کے حالیہ حملے پر اس ملک کے سیاسی و مذہبی حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے-

افغانستان کی علماء کونسل کے سربراہ قیام الدین کشاف نے اعلان کیا ہے کہ اس ملک کو بے رحم دشمنوں کا سامنا ہے کہ جو تمام اسلامی و انسانی اصولوں کو نظر انداز کر رہے ہیں- افغانستان کی حزب جمعیت اسلامی کے سربراہ اور صوبہ بلخ کے سرپرست نے بھی فوجی چھاؤنی پر طالبان کے حملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان قوم ، افغان فوجیوں کے خون کا انتقام طالبان سے لے کر رہے گی- افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی امریکہ کو افغانستان میں بحران کا اصلی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ طالبان اب اس کے بھائی نہیں رہے- افغانستان میں سیکورٹی حلقوں نے بھی فوجی چھاؤنی پر طالبان کے حملے کو اس گروہ کی آپریشنل کارکردگی میں تبدیلی لانے کا ذکر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس گروہ نے اب اپنی فوجی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے عوام پر حملے اور شہروں پر قبضہ کرنے کے بجائے فوجی چھاؤنیوں پر حملے کی ٹیکٹک اپنائی ہے- طالبان گروہ نے بھی کہا ہے کہ ان کے اس حملے کا مقصد اس گروہ کے سرغنوں کے قتل کا انتقام لینا ہے- افغانستان میں مختلف حلقوں کی جانب سے طالبان کے حملے پر ہونے والے ردعمل سے جونتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے یہ ہےکہ طالبان گروہ کو مختلف محاذوں پر شکست ہوئی ہے اور اب اس میں مقابلے کی طاقت و توانائی نہیں ہے-

 صوبہ بلخ میں فوجی چھاؤنی پر طالبان کا حملہ ، افغانستان میں امن و صلح کے عمل کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ماسکو کے حالیہ اجلاس کے بعد قابل غور امر ہے- یہ حملہ کئی جہتوں سے اہمیت رکھتا ہے- اول یہ کہ طالبان کے ساتھ مصالحت اور مذاکرات کا مسئلہ ایک مدت تک کے لئے ختم ہوجائے گا اور پھر کسی میں جرات نہیں ہوگی کہ وہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بات کرے- دوسرے یہ کہ یہ حملہ ، گروہ طالبان میں دھڑے بندی کا غماز ہے کہ جو کسی بھی صورت میں مصالحت اور مذاکرات کا خواہاں نہیں ہے - اور تیسرا مسئلہ جو فوجی چھاؤنی پر طالبان کے حملے کے بارے میں قابل غور ہے ، روس پر دباؤ بڑھانا ہے کہ جس نے حال ہی میں اس گروہ کے ساتھ تعلقات کی بات کی ہے اور کوشش میں ہے کہ طالبان کو سیاسی تشخص دے- البتہ پاکستان بھی اس امر سے مستثنی نہیں ہے - پاکستان پر بدستور طالبان کی حمایت کا الزام ہے اور افغانستان میں اس گروہ کی کوئی بھی کارروائی، پاکستان کے ساتھ اس ملک کے تعلقات پر منفی اثر مرتب کرتی اور کشیدگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے -اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ فوجی چھاؤنی پر طالبان کے حملے نے افغانستان میں نئے بحران کو ہوا دی ہے کہ جس کے منفی اثرات ملک کی سیاسی صورتحال پر بھی مرتب ہوں گے-

میڈ یا رپورٹس کے مطابق افغان صدارتی محل سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف اور وزیر دفاع نے استعفا دے دیا ہے جسے صدر اشرف غنی نے قبول کر لیا ہے۔ مزار شریف حملے کے بعد سے عوام کی جانب سے حکومت پر آرمی چیف اور وزیر دفاع سے استعفیٰ لینے کے لئے شدید دباؤ تھا۔  اگرچہ افغانستان میں سیاسی حلقوں نے اس قسم کے حملوں کو انتقامی کارروائی قرار دیا ہے لیکن افغانستان کے سیاسی حلقے ، گذشتہ مہینوں کے دوران طالبان کے اس قسم کے حملوں کو، مثلا کابل کے فوجی ہسپتال پر حملے کو، افغانستان کی قومی اتحاد حکومت کے حکام کے درمیان اختلاف اور کشیدگی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں کیوں کہ حکام کے درمیان اختلاف اور کشیدگی، فوجیوں اور سیکورٹی فورسز کی صفوں میں دشمن کے نفوذ کا باعث بنی ہے- اس کے معنی یہ ہیں کہ فوجی اور سیاسی ڈھانچوں میں نفوذی عناصر کا اثر و رسوخ ہی طالبان اور دہشت گرد گروہوں کی تقویت کا باعث بنا ہے لہذا  یہ مسئلہ، حکام کے درمیان آپسی اختلاف ختم کرنے اور مضبوط اتحاد کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے-            

ٹیگس