May ۲۱, ۲۰۱۷ ۱۷:۰۸ Asia/Tehran
  • ریاض اجلاس سعودی - صیہونی اور امریکی فتنہ

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکی صدر کی شرکت سے سترہ عرب اور اسلامی ملکوں کے سربراہوں کا اجلاس منعقد ہوا ہے۔ یہ اجلاس امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر منعقد کیا گیا ہے جس کے خاص اہداف و مقاصد ہیں۔

ریاض میں ہونے والے ،عرب ۔ امریکی اجلاس پر سخت ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ  بعض عرب حکومتیں اپنی غلط پالیسیوں، رویے، انتہا پسندانہ سوچ  اور ان کی ترویج اور اس قسم کے خیالات کی حمایت اور اسی طرح اسلاموفوبیا اورعدم استحکام کے ساتھ خطے میں کشیدگی کو بڑھانے کا باعث بنی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی غلط پالیسیوں میں سے ایک ایران فوبیا منصوبے کی حمایت ہے جو غاصب صہیونی حکومت کے ذریعے پھیل رہی ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے بھی ایک پریس کانفرنس میں ریاض اجلاس کو ایک سازش سے تعبیر کیا اور کہا کہ سعودی عرب، تل ابیب کے ساتھ اپنے تعلقات کے پیش نظر اس اجلاس کو دوسرا نام دے کر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ریاض، علاقے میں سعودی عرب کے حالیہ اقدامات کے مد نظر یہ اجلاس منعقد کر کے اپنے سلسلے میں دہشت گردی پھیلانے کا موضوع دبانا چاہتا ہے۔ بہرام قاسمی نے امریکیوں کو صلاح دی کہ وہ فاش غلطی کا ارتکاب نہ کریں اور ماضی کی اپنی غلطیوں کو پھر نہ دہرائیں کیونکہ اس کے نتائج خود امریکہ کو بھگتنا پڑیں گے۔

دوسری جانب عراق کے نامورعالم دین اورصدرموومنٹ کے سربراہ مقتدی صدرنے بغداد میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ریاض میں عرب رہنماؤں کی ملاقات کو ننگ و عار قرار دیتے ہوئے اسلامی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ امریکہ پر بھروسہ نہ کریں۔ مقتدی صدر نے کہا کہ ٹرمپ کے ساتھ اسلامی ممالک کا مشترکہ اجلاس شرمناک ہے، امریکہ معتدل اور قابل اعتماد ملک نہیں ہے اس لئے اسلامی اور عرب ممالک کو چاہئیے کہ وہ امریکہ پر بھروسہ نہ کریں۔ یمن کی تحریک انصاراللہ کے سربراہ عبدالملک الحوثی نے کہا کہ امریکی صدر کے دورہ ریاض اور امریکہ ۔ عرب اجلاس کا مقصد، عرب ممالک کو تقسیم کرنا ہے۔ تحریک انصاراللہ کے سربراہ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ریاض اجلاس کا مقصد صیہونی حکومت کے اہداف کا حصول ہے، کہا کہ امریکہ کا اصل مقصد عرب اور اسلامی ممالک کو، نسلوں اور قبائل میں تقسیم کرنا اور چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کرنا ہے تاکہ اسرائیل پوری طرح محفوظ ہو جائے اور اسے کسی طرح کا خطرہ نہ رہے۔ عبدالملک الحوثی نے اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فنڈ فراہم کئے جانے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو غریب اور برباد کرنے کے مذموم امریکی عزائم پر عمل پیرا ہیں۔

العالم کی رپورٹ کے مطابق یمن کے عوام نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے خلاف دارالحکومت صنعا میں احتجاجی ریلی نکالی اور امریکہ اور سعودی عرب کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے ایسے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر علاقے میں امریکی اور سعودی جارحیت کے خلاف نعرے درج تھے۔  احتجاجی مظاہروں کی کال یمن کی اعلی انقلابی کونسل کی کمیٹی کے صدر محمد علی الحوثی اور احتجاجی مظاہروں کو آرگنائز کرنے والی کمیٹی نے دی تھی۔  امریکہ نے مغربی ایشیاء سے شمالی افریقہ تک کے علاقوں میں امن قائم کرنے کے بہانے اپنے یکطرفہ اقدامات کے ذریعے اس پورے علاقے کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے ۔ امریکہ نے گذشتہ چار عشروں کے دوران عملی طور پربارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن و امان قائم کرنے کے درپے نہیں ہے اور حقیقی دھمکیوں اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا ہے۔ امریکہ نے داعش دہشت گرد گروہ کی جو مدد کی ہے اس سے اس دہشت گرد گروہ کو پرامن ماحول میں سرگرمیاں جاری رہنے کا موقع فراہم ہوا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بھی القاعدہ کی حمایت سے وہ مشرق وسطی کے علاقے پر تسلط اور اثرو نفوذ کے درپے رہا ہے۔ امریکی اقدامات سے، علاقے اور دنیا کی قوموں کو دہشت گردی ، جنگ ، تقسیم اور بدامنی میں شدت کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔

آج ایران کے پڑوسی ممالک دہشت گردی اور بدامنی کا شکار ہیں لیکن امریکہ ایران کے خلاف اتحاد قائم کرنے کی کوشش میں ہے اور اس طرح سے حقائق کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ علاقے میں  عرب ملکوں کی ہم آہنگی سے سفارتی سرگرمیاں بھی، امریکی اقدامات میں شدت لانے اورایران کے خلاف نام نہاد عرب اتحاد تشکیل دینے کے مقصد سے ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور علاقے کے بعض عرب ممالک ایران کے خلاف اتحاد قائم کرنے کے درپے ہیں۔ اور سعودی عرب نے کچھ مہینوں قبل خلیج فارس تعاون کونسل کے اجلاس میں، علاقے کے عرب ملکوں کے ایران مخالف اتحاد کی تجویز بھی پیش کی تھی۔

ٹیگس