May ۲۲, ۲۰۱۷ ۱۸:۵۷ Asia/Tehran
  • افغانستان میں عام شہریوں کے قتل عام میں اضافہ

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکہ اور افغانستان کے صدور ڈونلڈ ٹرمپ اور محمد اشرف غنی کی باہمی ملاقات کے موقع پر امریکہ سے شائع ہونے والے جریدے گلوبل ریسرچ نے امریکی اور نیٹو فوجیوں کے ہاتھوں افغان عوام کے قتل عام کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق افغانستان میں عام شہریوں کا قتل عام کوئی اتفاقی بات نہیں ہے۔ افغانستان میں سنہ 2001ع سے لے کر سنہ 2014ع تک امریکی فوجیوں کی موجودگی کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ افغان شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گلوبل ریسرچ کے مطابق افغان عوام درحقیقت مغرب خصوصا امریکہ کے تسلط پسندانہ اہداف اور اس کی سازشوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔

براؤن یونیورسٹی نے "جنگ کی قیمت" کے زیر عنوان تحقیقات کی ہیں۔ جن سے افغان عوام کے وسیع پیمانے پر قتل عام کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس ملک میں روزانہ اوسطا بیس عام شہری مارے جاتے رہے ہیں۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے دفتر نے بھی سنہ 2015ع اور سنہ 2016 کے برسوں کے دوران اس ملک میں عام شہریوں کے قتل عام کے اعداد و شمار کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے پیشین گوئی کی ہے کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں جنگ میں شدت پیدا ہونے سے ان اعداد و شمار میں اضافہ ہوجائے گا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سنہ 2001 ع میں افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کے قبضے کے بعد سے اس ملک کے عوام کو امن کی برقراری کے لیے بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ لیکن عملی طور پر نہ صرف اس ملک میں امن قائم نہیں ہوا ہے بلکہ اسے بدامنی میں اضافے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مغرب کے خبری حلقوں کی جانب سے افغانستان کی خبریں منظر عام پر نہ لائے جانے کی وجہ سے افغانستان میں امریکہ کے جرائم  و مظالم کے صحیح اعداد و شمار سامنے نہیں آتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آزاد ذرائع افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے مظالم کے بارے میں جو خبریں منظر عام پر لاتے ہیں وہ تفریح کے لئے عام شہریوں کے قتل عام، افغان شہریوں کی لاشوں کے مثلہ کئے جانے اور ان کو جلائے جانے جیسے امریکی اور نیٹو کے فوجیوں کے مظالم و جرائم پر مشتمل ہوتی ہیں۔

امریکہ سے شائع ہونے والے جریدے رولنگ اسٹون نے حال ہی میں ایک رپورٹ میں ایسی تصاویر شائع کی ہیں جن میں امریکی فوجی افغانستان میں تفریح کے لئے غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق بعض امریکی فوجیوں پر افغان شہریوں کے بہیمانہ قتل کا الزام ہے اور پینٹاگون کے دعوے کے مطابق انہوں نے یہ کام خفیہ طور پر انجام نہیں دیا ہے بلکہ اپنے فوجی یونٹ کے سامنے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس سے قبل بھی جرمن جریدے اشپیگل نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں دو امریکی فوجیوں کی ایسی تصویریں تھیں جو انہوں نے دو افغان جوانوں کی خون آلود لاشوں کے ساتھ بنوائی تھیں۔ اس صورتحال میں امریکہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے درپے ہے۔ اگر افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس ملک میں تشدد میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ ان حالات میں افغان عوام اپنے ملک کے صدر محمد اشرف غنی سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ریاض میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران ان پر یہ واضح کر دیں گے کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھانے اور امریکی فوجیوں کے مظالم و جرائم کے مخالف ہیں۔

 

ٹیگس