May ۲۲, ۲۰۱۷ ۱۸:۵۹ Asia/Tehran
  • امریکی وزیر خارجہ  کے بیان پر ایران کا رد عمل

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے سینئر ترجمان بریگیڈیئر جنرل مسعود جزائری نے اتوار کے دن ایران کی میزائلی صلاحیت سے متعلق امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے بیانات پر اپنا رد عمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ علاقے اور دنیا کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر دفاعی اہداف منجملہ دفاعی میزائلی پروگرام کو جاری رکھنا، اس کی رفتار میں تیزی لانا اور اس میں گہرائی پیدا کرنا ایران کی ترجیحات شامل ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بیس مئی ہفتے کے دن ایران کے صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر حسن روحانی کی کامیابی پر اپنے ردعمل میں ان کو مخاطب کرتے ہوئے ایران کے میزائلی تجربات کا سلسلہ بند کرنے کو کہا تھا۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ امریکہ کس بنیاد پر ایران کی دفاعی صلاحیت کو خطے کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتا ہے جبکہ وہ خود سعودی عرب اور خطے کے دوسرے عرب ممالک کے ہاتھ سیکڑوں ارب ڈالر کی مالیت کے ہتھیار منجملہ جدید ترین میزائلی سسٹم کی فروخت کے ذریعے خطے میں بدامنی پھیلا رہا ہے اور یہ کہ کونسے بین الاقوامی کنونشن کے مطابق معمول کے روایتی ہتھیار کے طور پر میزائل اپنے پاس رکھنا خطرہ شمار ہوتا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میزائلی دفاعی صلاحیت کا حامل ہونا  دفاعی صلاحیت کا ایک حصہ ہے اور کسی بھی طرح سے یہ بین الاقوامی قوانین کے منافی نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اسی تناظر میں اور خطرات کی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی دفاعی حکمت عملی مرتب کی ہے۔ ایران دوسری بڑی طاقتوں کے برخلاف عام تباہی پھیلانے والے  ایٹمی، کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیاروں کو اپنی طاقت کے لئے ضروری نہیں سمجھتا ہے اور وہ انسانی اور دینی اقدار کے تحت عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کو حرام جانتا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کا واضح اور شفاف موقف ایک دستاویز کی صورت میں اقوام متحدہ میں درج بھی ہوچکا ہے۔ بنابریں ایران دفاعی ہتھیار کے طور پر ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے میزائلوں کی تیاری پر یقین نہیں رکھتا ہے۔ ایران کی دفاعی ڈاکٹرائن میں اس طرح کے ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ ایران بلند ترین سطح پر سلامتی پر تاکید کرتا ہے۔ جیسا کہ ایران کے وزیر دفاع میجر جنرل دہقان اس سے قبل تاکید کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ ایران کا میزائلی پروگرام واضح ہے اور کسی کو بھی اس میں دخل دینے کی اجازت  نہیں ہے۔

اس میں شک نہیں ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام اس طرح کا ماحول پیدا کر کے ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ خطے کی سلامتی کو خطرہ ہے تاکہ خطے کے عرب ممالک ہتھیاروں کی خریداری کی جانب مائل ہوں۔ امریکہ اس ہدف کو ایرانوفوبیا میں شدت پیدا کر کے حاصل کرنے کے درپے ہے۔ امریکہ نے یہ دعوی اس سے پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی کیا تھا اور ایران کی میزائلی صلاحیت میں اضافے کو مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی قرار دلوانے کی کوشش کی تھی لیکن اسے اپنے اس ہدف میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی کیونکہ سلامتی کونسل نے ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ہونے والےایٹمی معاہدے کے بعد ایک قرارداد منظور کر کے صراحت کے ساتھ کہا تھا کہ ایران کی جائز اور معمول کی فوجی سرگرمیاں قانونی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر ایران کی میزائلی صلاحیت کو خطرہ ظاہر کرنے پر مبنی امریکہ کے اقدامات میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ امریکہ اپنے ان اقدامات کے ذریعے ایران کی دفاعی صلاحیت کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے درپے ہے۔ لیکن اسے اپنے اس مقصد میں کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمنوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کی  میزائلی دفاعی طاقت کا ادراک ہے اور اسی وجہ سے وہ ایران کے میزائل پروگرام کو سلامتی کے لئے خطرہ ظاہر کر رہے ہیں۔ جیساکہ بریگیڈیئر جنرل مسعود جزائری نے کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے ایران کے صدر سے جو توقع لگا رکھی ہے  اس سے اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں امریکی حکام کی لاعلمی اور عدم واقفیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ مسعود جزائری نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ ایران کی دفاعی پالیسیاں اور اہداف واضح پروگرام کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں اور کوئی بھی چیز ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے۔

 

ٹیگس