Jun ۲۴, ۲۰۱۷ ۱۵:۳۵ Asia/Tehran
  • عالمی یوم القدس کے مظاہرے کے شرکا پر آل سعود کا تشدد

سعودی عرب کے فوجیوں نے العوامیہ سٹی کے محاصرے کے شکار محلے المسورہ میں عالمی یوم القدس کے مظاہرے میں شرکت کرنے والوں پر بکتر بند گاڑیوں کےساتھ حملہ کر دیا۔ العوامیہ کے محلے الدیرہ میں جوانوں نے عالمی یوم القدس کی مناسبت سے علامتی طور پر اجتماع کیا تھا جس کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سعودی حکام نے یہ حملہ کیا۔ العوامیہ سٹی کے محاصرے کو پینتالیس دن ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود جوانوں نے محاصرہ شدہ محلوں میں علامتی طور پر اجتماع کر کے فلسطین کا پرچم لہرایا۔

اس اجتماع میں شرکت کرنے والوں نے فلسطین کو اسلامی دنیا کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا اور تاکید کی کہ یوم القدس ان سعودی اور صیہونی مستکبرین کے ساتھ مستضعفین اور کمزوروں کے مقابلے کا دن ہے جنہوں نے العوامیہ اور فلسطین کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔  سعودی عرب میں ناانصافی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنا پر سنہ دو ہزار گیارہ سے آل سعود حکومت کےخلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس احتجاج کے دوران دسیوں افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ سعودی عرب کے عوام کو آل  سعود کی نہ صرف داخلہ پالیسی پر اعتراض ہے بلکہ ان کو پٹھو آل سعود حکومت کی خارجہ پالیسی پر بھی اعتراض ہے کیونکہ آل سعود کی خارجہ پالیسی مغرب سے مکمل وابستگی اور صہونی حکومت کی قربت پر استوار ہے۔ اسی وجہ سے سعودی عرب کے عوام اور اسلامی دنیا کی رائے عامہ نے آل سعود کی خارجہ پالیسی کے وسیع پیمانے پر خلاف احتجاج کیا ہے۔

آل سعود ایسی حالت میں فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز کر رہی اور مسلمانوں کے قبلۂ اول کے بارے میں بے اعتنائی برت رہی ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو اسلام کا خادم قرار دیتی ہے۔ دریں اثناء سعودی عرب نے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی اور بیت المقدس پر سے صیہونی حکومت کے تسلط کے خاتمے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے بلکہ اس نے بعض اوقات تو بیت المقدس اور فلسطین پر صیہونی حکومت کے قبضے کو تقویت پہنچانے سے متعلق مغرب اور اس حکومت کی سازشوں منجملہ فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کے سلسلے میں اس حکومت کا ساتھ بھی دیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ آل سعود کے حکام سعودی عرب میں صیہونی حکومت کے خلاف کسی طرح کا اعتراض برداشت نہیں کرتے ہیں اور وہ صیہونی حکومت کےخلاف ہونے والے ہر طرح کے اعتراض کو سختی کے ساتھ سرکوب کردیتے ہیں۔ عالمی یوم القدس کے موقع پر عالم اسلام سمیت پوری دنیا میں صیہونی حکومت کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے لیکن سعودی عرب میں فلسطینی عوام کی حمایت میں نکالے جانے والے عوامی جلوسوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور دنیا بھر کے لوگ سعودی اور صیہونی حکام کو مسلمانوں کا خون بہانے کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان حمید رضا آصفی کا کہنا ہے کہ  آل سعود اور صیہونی حکومت خطے میں اسلامی تحریکوں کو کچلنے کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔ حمید رضا آصفی کا مزید کہنا ہے کہ آل سعود حکومت کے ماضی سے صیہونیوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رہے ہیں۔

حالیہ دنوں کے دوران شیطان حکومتوں کے طور پر آل سعود اور صیہونی حکومت کے باہمی تعاون اور تعلقات کے بارے میں مختلف رپورٹیں منظر عام پر آئی ہیں۔ جن سے رائے عامہ کو اسلامی دنیا کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کرنے پر مبنی آل سعود کی خیانتوں کا پتہ چلا ہے۔

اس کے علاوہ محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا ولی عہد بنائے جانے کے بعد صیہونی ذرائع ابلاغ نے حالیہ برسوں کے دوران اسرائیلی حکام کے ساتھ ان کی خفیہ ملاقاتوں کا انکشاف کیا ہے۔

صیہونی حکومت کے وزیر ایوب قرا ( Ayoob Kara ) نے  سعودی عرب کے نئےولیعہد کی تقرری کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس سے اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے تعلقات معمول پر لانے میں مدد ملے گی۔ ایوب قرا نےاس سے پہلے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ اسرائیل اور سعودی عرب امریکی ثالثوں کے ذریعے تمام شعبوں میں اپنے تعلقات معمول پر لانے کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں کہا تھا کہ سعودی عرب کی فضائی حدود میں اسرائیلی طیاروں کی پرواز، سعودی عرب میں اسرائیل کے مفادات کے محافظ دفتر کا کھولا جانا اور دوسرے بہت سے شعبوں میں تعاون جیسے موضوعات پر ریاض اور تل ابیب کے حکام کے مذاکرات جاری ہیں۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب خطےمیں صیہونیت مخالف استقامت کے خلاف اقدامات انجام دینے اور فلسطینی عوام کی استقامت کے لئے بڑھتی ہوئی حمایت کو کم کرنے کے سلسلے میں حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب اور اسرائیل کی ہم آہنگی پہلے سے زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے۔عالمی یوم القدس کے موقع پرسعودی عرب کے عوام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت میں نکالے جانے والے جلوس پر  آل سعود کے تشدد کا جائزہ بھی اسی تناظر میں لیا جانا چاہئے۔   

 

ٹیگس