Jul ۲۱, ۲۰۱۷ ۱۶:۳۵ Asia/Tehran
  • کویت میں ایرانی سفارت کاروں کی تعداد میں کمی پر ایران کا رد عمل

کویت کی وزارت خارجہ کی جانب سے عبدلی نامی کیس کی بنا پر تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات کے بارے میں فیصلہ کئے جانے کے بعد تہران میں تعینات کویت کے ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب اور اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ ایران جوابی کارروائی کا اپنا حق محفوظ رکھتا ہے۔

کویت کی وزارت خارجہ نے جمعرات کے دن عبدلی نامی کیس کے سلسلے میں اس ملک میں ایرانی سفارتکاروں کی تعداد میں کمی کا حکم دیا تھا۔ کویت کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ اس کیس کا تعلق ایران سے وابستہ ایک مسلح گروہ سے ہے۔ کویتی وزارت خارجہ کے اقدام کے بعد تہران میں تعینات کویت کے ناظم الامور  فلاح الحجرف کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا اور کویت کے رویئےکے بارے میں احتجاج اور اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا کہ ایران بھی کویتی سفارت کاروں کی تعداد میں کمی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے بتایا کہ دفترخارجہ کے حکام نے ایران کے خلاف کویتی حکام کے الزامات کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے کویتی حکام خطے کی حساس صورتحال اور موجودہ کشیدگی کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے اسلامی جمہوریہ ایران پر بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔

عبدلی نامی کیس کا آغاز کویت میں سنہ دو ہزار پندرہ میں ہوا۔ یہ کیس عدالت میں گیا تو کویتی حکام نے عبدلی گروہ پر جاسوسی کا الزام عائد کر دیا اور پھر دعوی کیا کہ یہ گروہ ایران سے وابستہ ہے۔ بہرام قاسمی کے مطابق، کویتی ناظم الامور کو بتایا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا عبدلی کیس سے کوئی تعلق نہیں اور اس کیس کے شروع سے ہی ایران نے کویتی حکام کو اپنے واضح مؤقف سے آگاہ کردیا تھا۔ اب یہ سوال اٹھتا ہےکہ خلیج فارس کے علاقے کی موجودہ بحرانی اور حساس صورتحال میں کویت کیوں ایک بار پھر مہم جوئی پر مبنی اقدامات کا شکار ہوگیا ہے؟

ایران اور کویت کے تعلقات خصوصا عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام کی جانب سے کویت پر حملہ کرنے کے بعد ایران اور کویت کے تعلقات پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کویت کی حمایت کر کے جنگ کے کٹھن حالات میں ذمےدارانہ رویۓ کا مظاہرہ کیا۔ کویت اور ایران کے دوستانہ تعلقات گزشتہ برسوں کے دوران اغیار کے مہم جوئی پر مبنی اور تباہ کن اقدامات سے متاثر نہ ہوئے۔

اسلامی جمہوریہ ایران اپنے ہمسایہ ممالک اور خلیج فارس کے ساحلی ممالک کے سلسلے میں باہمی تعاون اور مشاورت کو اپنی خارجہ پالیسی کے ایک اہم اصول کے طور پر مدنظر رکھتا ہے۔ جب بھی خطے میں کوئی بحران رونما ہوا تو ایران نے سب سے پہلے کویت کے ساتھ ہی مشاورت کی۔ ایران نے چار عرب ممالک کی جانب سے قطر کا بائیکاٹ کئے جانے کی حالیہ کشیدگی میں کسی ملک کی جانبداری نہیں کی اور اس بحران کو حل کرنے کے لئے اس نے کویت کے ساتھ مشاورت کی۔ ایران نے خلیج فارس کے حساس علاقے میں پائیدار امن اور پرامن بقائے باہمی کے دو اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس خطے میں کردار ادا کیا اور اسی تناظر میں اس نے ہمیشہ ذمےدارانہ رویئے کا مظاہرہ کیا۔

جبکہ دوسری جانب بعض ایسے ممالک ہیں جو مہم جوئی پر مبنی اقدامات انجام دے کر ممالک کے اچھے تعلقات کو بگاڑنے اور تباہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے خاص مفادات حاصل کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ سعودی عرب نے قطر پر خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے کے مقصد سے تیرہ شرائط پیش کر کے جو دباؤ ڈالا اس کا اسی تناظر میں جائزہ لیا سکتا ہے۔ ایران اور اخوان المسلمین کے ساتھ تعلقات ختم کرنے اور دوحہ میں ترکی کے فوجی اڈے کو بند کرنے کے سلسلے میں قطر پر دباؤ ڈال کر سعودی عرب اپنے خاص مفادات حاصل کرنے کے درپے ہے۔ سعودی عرب خطے میں ایران کے ذمےدارانہ کردار کے مقابلے میں ایرانوفوبیا پھیلانے میں مصروف ہے اور وہ مختلف حربوں اور بے بنیاد الزامات کے ذریعے دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔

عبدلی کیس کے بہانے کویت میں تعینات ایرانی سفارتکاروں کی تعداد میں کمی کرنا درحقیقت کویت کا سعودی عرب کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسنے کے مترادف ہے۔ سعودی عرب خطے کا ایک ایسا ملک ہے جو مہم جوئی پر مبنی اقدامات انجام دے رہا ہے۔ کویت کے برخلاف قطر نے اب تک اپنی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں سعودی عرب کی سرپرستی قبول نہیں کی ہے۔

 

ٹیگس