Jul ۲۲, ۲۰۱۷ ۱۶:۱۷ Asia/Tehran
  • شامی پارلیمنٹ کی اسپیکر کی برطرفی

شام کی پارلیمنٹ نے اسپیکر ہدیہ عباس کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ بیس جولائی کو شام کی پارلیمنٹ میں ووٹنگ ہوئی۔ پارلیمنٹ میں موجود دو سو پچاس اراکین میں سے دو سو اراکین نے ہدیہ عباس کےخلاف ووٹ ڈالے۔ جس کے نتیجے میں ہدیہ عباس کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ڈپٹی اسپیکر نجدت اسماعیل انزور عبوری اسپیکر بن گئے ہیں۔ نجدت اسماعیل انزور صرف پندرہ دن تک اس عہدے پر فائز رہیں گے کیونکہ آئندہ پندرہ دن تک اراکین پارلیمنٹ، نیا اسپیکر منتخب کریں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہدیہ عباس پارلیمانی اجلاس کے انعقاد کے مواقع پر پارلیمنٹ کے اصولوں پر ذاتی پسند و ناپسند کو ترجیح دیتی تھیں۔ کہا جارہا ہے کہ ہدیہ عباس پارلیمانی سرگرمیوں میں بعض اراکین پارلیمنٹ کو شرکت سے روکتی تھی اور پارلیمانی اجلاس کا وقت ختم ہونے سے پہلے سے ہی اس کے خاتمے کا اعلان کر دیا کرتی تھیں۔ یہ کام ہدیہ عباس نے بارہا انجام دیا۔ آخرکار کل کے پارلیمانی اجلاس میں اراکین نے پارلیمنٹ میں دھرنا دے دیا۔ ایک سو چونسٹھ اراکین پارلیمنٹ نے ہدیہ عباس کو اسپیکر  کے عہدے سے  ہٹائے جانے کا مطالبہ کر دیا اور پارلیمانی امور ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق چلانے پر مبنی ان کی کارکردگی کو آئین کے منافی قرار دیا۔

شام کی پارلیمانی اسپیکر کی برطرفی تین واضح پیغامات کی حامل ہے۔ اول یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، شام میں سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹ کا سبب نہیں بنی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شدت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اس ملک میں سیاسی سرگرمیاں بھی مسلسل جاری ہیں۔ دوم یہ کہ شام کے موجودہ حساس حالات میں کسی بھی عہدیدار کی کوتاہی نہ صرف قابل قبول نہیں ہے بلکہ کوتاہی سے کام لینے والے افراد کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عبوری اسپیکر نجدت اسماعیل انزور نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتنے کو ہدیہ عباس کی برطرفی کا سبب قرار دیا ہے۔سوم یہ کہ موجودہ مرحلے کو کامیابی سے سر کرنے اور استحکام و امن کے مرحلے تک پہنچنے کے لئے شام کے حکام اور عہدیداروں کو عوام سے زیادہ صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب ہدیہ عباس  کی ذاتی پسند و ناپسند  پر استوار کارکردگی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ کے امور چلانے کے سلسلے میں ان میں بہت کم قوت برداشت  پائی جاتی تھی اور انہیں موجودہ مرحلے کو کامیابی سے سر کرنے پر یقین بھی نہیں تھا۔ حالیہ مہینوں کے دوران شام کے بحران کے خاتمے کی امید میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ایک جانب شام کی فوج اور اس ملک کے اتحادیوں کو دہشت گردوں  کے مقابلے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں میں تیزی پیدا ہوئی ہے اور دوسری جانب امریکہ کو شام سے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور اس نے جنوبی شام کے بعض علاقوں میں جنگ بندی کو قبول کر لیا۔ دریں اثناء شام کے بحران سے متعلق منعقد ہونے والے آستانہ اور جنیوا مذاکرات بھی شام کی حکومت اور اس کے مخالفین کے نظریات کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ممد و معاون ثابت ہوئے ہیں اور توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ مذاکرات شام کے بحران میں کمی لانے پر منتج ہوں گے۔

ان حالات میں اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ ملک کا انتظام چلانے کے سلسلے میں شامی حکام  پہلے سے زیادہ باہمی اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔

ٹیگس