Jul ۲۲, ۲۰۱۷ ۱۸:۵۶ Asia/Tehran
  • مشترکہ جامع ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد پر تاکید

ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے مشترکہ کمیشن کی آٹھویں نشست کل ویانا میں منعقد ہوئی۔ اس نشست میں بھی سابقہ نشست کی طرح تمام فریقوں کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد پر تاکید کی گئی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کل کی نشست کے اختتام پر آسٹریاکے دارالحکومت ویانا میں نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ تمام فریقوں نے ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ساتھ تعاون کئے جانے کو سراہا۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ تمام فریقوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب فریقوں کو جوہری معاہدے پر مکمل عملدرآمد اور اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔

مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کو طے پائے ہوئے دو سال کا عرصہ جبکہ اس پر دستخط ہوئے ڈیڑھ برس ہوگیا ہے۔ اس عرصے میں مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد نشیب و فراز کا شکار رہا اور گروپ پانچ جمع ایک کے مشترکہ کمیشن نے  اس بارے میں مسلسل اجلاس منعقد کئے اور اس معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی کی۔ بعض رپورٹوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ نے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد سے اب تک تیس مرتبہ اس کی خلاف ورزی کی ہے۔اس سلسلے میں تازہ ترین اقدام پندرہ جون کو انجام دیا گیا اور امریکی سینیٹ نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کے خلاف جامع پابندیوں کا قانون منظور کیا۔ اس قانون میں ایران کے میزائل پروگرام اور ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا بے بنیاد الزام لگا کر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور اسلحے سے متعلق پابندیوں پر عملدرآمد کے لئےبھی کہا گیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے یہ  پابندیاں ایسی حالت میں لگائی جا رہی ہیں کہ جب وہ نیک نیتی کے ساتھ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے اور اس کو ناکامی سے دوچار کرنے والے ہر طرح کے اقدام سے گریز کرنے کا  پابند ہے۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ امریکہ کہاں تک اس سلسلے کو جاری رکھے گا اور کیا امریکہ کی اس عہد شکنی کی روک تھام کے لئے کوئی میکینزم موجود ہے؟

سید عباس عراقچی نے ایٹمی معاہدے کو ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر قبل تہران میں  ایک سال قبل کہا تھا کہ امریکی اور یورپی حکام نے گزشتہ ایک برس کے دوران اس معاہدے کی مقدور بھر خلاف ورزی کی۔ امریکہ کے ایک عہدیدار نے بھی مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہونے کے کچھ ماہ کے بعد کہا تھا کہ ہم ایسا کام انجام دیں گے کہ دنیاکے سرمایہ کاروں کو ایران میں جانے کی جرات ہی نہ ہو۔ بہرحال یہ بات یقینی ہے کہ اس سلسلے کا جاری رہنا مشترکہ جامع ایکشن پلان کے تمام فریقوں کے مفادات اور ساکھ کو خطرے میں ڈال دے گا۔ فارن پالیسی ویب سائٹ نے کچھ عرصہ قبل اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ہم ایران کا مقابلہ کریں گے لیکن ایٹمی معاہدے کو خطرے میں ڈالنے کی قیمت پر نہیں۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہےکہ اسلامی جمہوریہ ایران جب یہ محسوس کرے کہ فریق مقابل اپنے وعدوں پر عمل نہیں کر رہا  ہے تو وہ اس سے نکلنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ایران کے خارجہ تعلقات کی اسٹریٹیجک کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر کمال خرازی نے جمعے کے دن فرانس چوبیس ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان ایران کی ریڈ لائن ہے اور تہران اس معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کی صورت کو مدنظر رکھ کر اپنی تیاری مکمل کر چکا ہے۔

مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مستقبل کے فیصلے کا انحصار امریکہ کے رویئے پر ہے۔ اس سلسلےمیں ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل اور پارلیمنٹ نے بعض خدشات کا اظہار کیا ہے اور بعض سفارشات پیش کیں اور ایرانی حکومت اور وزارت خارجہ ان سفارشات پر عملدرآمد کی پابند ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کچھ عرصہ قبل ایرانی پارلیمنٹ کے اراکین سے ملاقات میں تاکید کی تھی کہ پارلیمنٹ کو امریکہ کے مخاصمانہ مواقف کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرنا اور سامراجی پالیسیوں کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ یہ مسئلہ اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ امریکہ چونکہ اسلامی جمہوری نظام کا مخالف ہے اس لئے وہ ایران کے ساتھ دشمنی کرتا ہے اور اگر اس دشمنی کا جواب نہ دیا گیا تو مختلف بہانوں سے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ٹیگس