Jul ۲۳, ۲۰۱۷ ۱۸:۳۷ Asia/Tehran
  • امریکہ کی ایران مخالف سفارت کاری

امریکی حکام کے بیانات حالیہ دنوں میں سیاسی اور خبری حلقوں کا موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اکیس جولائی جمعے کے دن ایران کے داخلی امور میں مداخلت کرتے ہوئے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلدامریکہ کی فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن ایف بی آئی  کے سابق ملازم رابرٹ لیونسن کو جن کے بارے میں دعوی کیا گیا ہے کہ وہ سنہ دو ہزار سات میں ایران میں لاپتہ ہوا تھا، آزاد کرے۔ سوئٹزر لینڈ سے فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والے جریدے ٹریبیون دو جنیوا نے اپنی ویب سائٹ میں امریکہ کے اس اقدام کو ایران پر دباؤ میں شدت پیدا کرنے کی پالیسی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے ایران پر اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے اور اس ملک کو خبردار کیا ہےکہ اگر اس نے امریکہ کے چند شہریوں کو، جسے اس جریدے کے بقول ناروا گرفتار کر رکھا ہے، آزاد نہ کیا تو اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایران نے بارہا امریکی حکام سے کہا ہے کہ رابرٹ لیونسن نامی شخص کئی برس قبل ایران آیا تھا اور ایران سے اس کے چلے جانے کے بعد تہران کو اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس کے بیان میں ایران میں ایک عدالتی کیس کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے اور ایران سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دوہری شہریت کے حامل ایرانی نژاد امریکی شہریوں سیامک نمازی اور اس کے والد باقر نمازی کو آزاد کرے۔ سیامک نمازی اور باقر نمازی کو دشمن امریکی حکومت کے ساتھ تعاون کے الزام میں ایران میں دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے وائٹ ہاؤس کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی دھمکی آمیز لفاظی کو ایران کے داخلی امور میں مداخلت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایرانی عدلیہ کے حکام کے مطابق، وائٹ ہاؤس نے جن افراد کے ناموں کا ذکر کیا ہے ان کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کے قانون کے مطابق الزامات ہیں جن کو قانون کے تحت دیکھا جائے گا۔ امریکی حکام اور اداروں کی جانب سے داخلی امور میں مداخلت پر مبنی اور دھمکی آمیز بیانات دیا جانا ایران کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل سفیر اور نمائندے غلام علی خوشرو نے اکیس جون کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام اپنے خط میں امریکی وزیر خارجہ کے مداخلت پر مبنی بیانات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایرانی حکومت کو سرنگون کرنے پر مبنی ریکس ٹیلرسن سمیت امریکی حکام کے بیانات مداخلت اور گستاخی پر مبنی ہیں اور یہ بیانات تمام بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے کل کے بیان سے بھی امریکی حکومت کی تسلط پسندانہ خو اور مداخلت پسندانہ ماہیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔امریکہ نے ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے متعدد ممالک کے شہریوں پر واشنگٹن کی ایران مخالف یکطرفہ پابندیوں کی خلاف ورزی کاالزام لگا کر مقدمات چلائے اور ان کو قید کر رکھا ہے۔ متعدد یورپی اور ایشیائی بینکوں کو بھی بھاری جرمانوں کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ امریکہ نے حال ہی میں چینی نژاد امریکی شہری کو ، کہ جو پرنسٹن یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہے، جاسوسی کے الزام میں دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ امریکی حکام کے رویئے کا جس زاویۓ سے بھی جائزہ لیا جائے وہ بین الاقوامی قوانین کے منافی ہی نظر آتا ہے۔ لیکن امریکہ اسے ایک بین الاقوامی بدعت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ یہ اقدامات اقوام متحدہ کے منشور کے منافی ہیں اور بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں سے تضاد رکھتے ہیں۔

ٹیگس