Aug ۱۷, ۲۰۱۷ ۱۸:۲۷ Asia/Tehran
  • ایران اور ترکی کے درمیان سیکورٹی تعاون کی ضرورت

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری ایک اعلی سطحی فوجی وفد کے ساتھ ترکی کے دورے پر ہیں ۔ انہوں نے بدھ کے دن ہمارے نمائندے سے گفتگو کے دوران کہا کہ دونوں ملک فوجی اور دفاعی شعبوں سمیت تمام شعبوں میں باہمی تعاون میں توسیع کے سلسلے میں پرعزم ہیں۔

دو طرفہ دفاعی تعلقات، خطے کی صورتحال، دہشت گردی کا مقابلہ اور سرحدی تعاون ترکی کے حکام خصوصا ترکی کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف خلوصی آکار کے ساتھ میجر جنرل محمد باقری کے مذاکرات کے دوران زیر بحث آنے والے اہم ترین موضوعات تھے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے بدھ کے دن ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ اگرچہ خطے میں بعض سیکورٹی مسائل کے سلسلے میں تہران اور انقرہ کے مواقف مختلف ہیں لیکن دہشت گردی کے مقابلے اور اجتماعی سلامتی کے سلسلے میں دونوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

خطے کے تمام مسائل کے سلسلے میں ایران اور روس کے مواقف بھی ایک جیسے نہیں ہیں لیکن دہشت گردی کے مقابلے اور قیام امن جیسے اہم موضوعات کے بارے میں ان میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ سیکورٹی مسائل کے بارے میں ایران اور روس کے اشتراک عمل کی وجہ سے شام کے بحران کے حل سے متعلق مذاکراتی عمل بطریق احسن آگے بڑھ رہا ہے۔

شام میں داعش سمیت تمام دہشت گرد گروہوں کو شکست ہو رہی ہے اور دوسری جانب آستانہ مذاکرات سے جنیوا مذاکرات کا راستہ بھی ہموار ہوا ہے۔ یہ کامیابی ایران اور روس کی جانب سے براہ راست اقدام کرنے اور ماسکو مذاکرات میں ترکی کے شامل ہونے کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے۔

ترکی ایک زمانے میں شام کی حکومت کی سرنگونی کو اپنے سیکورٹی مفادات کے فائدے میں جانتا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ترکی کو اپنے اندازوں کے غلط ہونے کا ادراک ہوچکا ہے۔ اب ہمسایہ ممالک کے درمیان اشتراک عمل کا ماحول پیدا ہوچکا ہے۔

اس کے علاوہ عراق کے مسائل خصوصا عراق کے علاقے کردستان میں ریفرینڈم کے بارے میں ایران اور ترکی کے مواقف ایک دوسرے سے بہت نزدیک ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف نے کہا ہے کہ اس ریفرینڈم سے تین ملک آپس میں الجھ جائیں گے اس لئے دونوں ممالک کے حکام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ریفرینڈم کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہ ریفرینڈم ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ خطے کی سیاسی اور سیکورٹی سے متعلق تبدیلیاں تشویشناک مشکلات میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران اور ترکی کے سیاسی معاہدوں اور فوجی مذاکرات سے خطے میں نیا توازن قائم ہوگا اور مغربی ممالک کی سازشوں کا مقابلہ کیا جاسکے گا۔

استنبول یونیورسٹی میں شعبۂ تعلقات عامہ کے پروفیسر سمیر صالحہ کا کہنا ہے کہ میرے خیال ہے کہ اس دورے اور ان مذاکرات کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے تاکہ عراق اور شام کے سلسلے میں ایران اور ترکی کے مفادات کو ممکنہ طور پر لاحق خطرات کا مقابلہ کیا جاسکے۔

ٹیگس