Aug ۱۹, ۲۰۱۷ ۱۴:۰۹ Asia/Tehran
  • امریکہ ایٹمی معاہدے  کو سبوتاژ کرنے کے لئے کوشاں

وائٹ ہاؤس نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے خلاف اپنے اقدامات میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ خبری ذرائع کے مطابق اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کے بارے میں بدھ کے دن ویانا میں ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ یوکیا آمانو کے ساتھ مذاکرات کریں گی۔

یہ اقدامات ایسی حالت میں انجام پا رہے ہیں کہ جب ٹرمپ حکومت کو چودہ ستمبر تک ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق امریکہ کی تیل کی پابندیوں کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ ٹرمپ حکومت کو پندرہ اکتوبر تک کانگریس میں ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کے بارے میں بھی فیصلہ کرنا ہے۔ امریکہ نے دس سال قبل ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کو جعلی رپورٹ پیش کر کے ایران کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ ظاہر کرنے پر مبنی سناریو کو عملی جامہ پہنایا۔ اسی طرح کے اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف یکطرفہ پابندیاں عائد کئے جانے کا باعث بنے۔ اب بھی وائٹ ہاؤس کے حکام اسی سناریو کو دہرانے، بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے اور مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد کے ماحول کو خراب کرنے کے درپے ہیں۔ البتہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے دوسرے تمام فریق امریکہ کے اس اقدام کے مخالف ہیں۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی شعبے کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے تہران کا دورہ کیا تو صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے ملاقات میں کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کسی ایک فریق کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ مذاکرات میں حصہ لینے والے تمام فریقوں اور عالمی برادری کو اس کے تحفظ کی کوشش کرنی چاہئے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے امریکہ کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یکطرفہ پابندیاں اصولی طور پر غیر قانونی ہیں۔ ہم یہاں صرف ایک ملک کے مفادات کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ سارے خطے کے مفادات کی بات کر رہے ہیں۔

خارجہ پالیسی کے امور کے ماہر حسن ہانی زادہ نے بھی اپنے انٹرویو میں امریکہ کی ایران مخالف نئی پابندیوں کے بارے میں کہا ہے کہ ایران کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ اپنے وعدوں پر عمل نہیں کر رہا ہے ۔ اس کی کوشش ہے کہ ایران یکطرفہ طور پر مشترکہ جامع ایکشن پلان سے نکل جائے تاکہ اس کے لئے ایران کے خلاف شدید پروپیگنڈہ مہم چلانے اور سیاسی اقدامات انجام دینے کی راہ ہموار ہوسکے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ امریکی حکام کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پابندیوں اور تسلط پسندی کے ناکام تجربات ہی ماضی کی امریکی حکومتوں کو ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لائے تھے اور اگر وہ ناکام تجربات کو دہرانا چاہتے ہیں تو شوق سے دہرائیں اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یقینا اسلامی جمہوریہ ایران بہت جلد جوہری مذاکرات شروع ہونے سے پہلے والے دور سے بھی زیادہ جدید ترین حالات کے ساتھ واپس پلٹ جائے گا۔ بلاشبہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے تحفظ کا دارومدار اس بات پر ہے کہ تمام فریق اپنے وعدوں پر عمل کریں کیونکہ وعدوں کی پابندی دو طرفہ راستہ ہے۔ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کو بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے امریکہ کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی راہ میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنا چاہئے۔

ٹیگس