Aug ۳۰, ۲۰۱۷ ۱۸:۵۶ Asia/Tehran
  • امریکہ کو افغان وزارت دفاع کا انتباہ

افغانستان کے رہائشی علاقوں پر امریکی فوج کے ہوائی حملے جاری رہنے اور عام شہریوں کے قتل عام پر افغانستان کی وزارت دفاع نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کو افغانستان میں اپنے ہٹ دھرمانہ اقدامات انجام دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی-

افغانستان کی وزارت دفاع کے ترجمان جنرل دولت وزیری کے بقول کسی بھی طرح کی فوجی کاروائی اس ملک کی فوج کے سربراہ کی ہم آہنگی سے انجام پانی چاہئے-

وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے قدم رکھنے اور امریکی جرنیلوں کو افغان جنگ کے اختیارات سونپے جانے کے بعد سے اس ملک کے فوجی، اپنی ہٹ دھرمی اور من مانی کرکے، اور افغان فوج سے ہم آہنگی کے بغیر ہی اس ملک کی سرزمین پر ہوائی حملے کر رہے ہیں- امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سینیٹرز کے بقول، جنگ افغانستان کے اختیارات ٹرمپ کی جانب سے امریکی فوج کو سونپے جانے کے پیش نظر، اب افغانستان میں اپنی کاروائی کے لئے ہمیں افغان فوج سے ہم آہنگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم افغان فوج کی اجازت کے بغیر بھی فضائی حملے کرسکتے ہیں-

اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ کی نظر میں افغانستان کے قومی اقتدار اعلی اور خودمختاری کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور امریکہ ، افغانستان کو اپنے ہی ایک صوبے کے طور پر دیکھتا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ افغانستان کے ساتھ امریکہ کا جارحانہ رویہ امریکی فورسیز کے خلاف افغان عوام کا غم و غصہ بھڑک اٹھنے کا باعث بن سکتا ہے- امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما نے افغانستان کو ایک اور ویتنام میں تبدیل نہ ہونے سے بچانے کے لئے امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد کو 2014 میں افغانستان سے واپس بلالیا تھا- اس بناء پر ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کہ جو امریکی فورسیز کی شکست کے تجربات پر توجہ کئے بغیر افغان جںگ کی باگ ڈور امریکی فوج کے کمانڈروں کے اختیار میں دے چکے ہیں اور افغانستان کی قومی سلامتی و اقتدار اعلی کو نظرانداز کر رہے ہیں ، ایسے میں افغانستان میں امریکی فوج کے لئے ایک اور ذلت آمیز تاریخ دہرائی جاسکتی ہے-

 امریکی فوج نے ایسی حالت میں افغانستان پر دوبارہ اپنے فوجی حملے شروع کئے ہیں کہ سابق صدر حامد کرزئی کے دور صدارت میں اس ملک کی وزرات دفاع اور افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کی بنیاد پر امریکی اور نیٹو افواج نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ افغانستان کی وزارت دفاع کی اجازت کے بغیر، وہ کوئی کاروائی نہیں کریں گی - حامد کرزئی نے افغانستان کی ارضی سالمیت اور خودمختاری کو نظر انداز کئے جانے کے نتائج کے بارے میں امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ ایسا کام نہ کرے کہ افغان عوام اس کے مقابلے میں ڈٹ جانے پر مجبور ہوجائیں- واشنگٹن کو افغانستان کے قومی اقتدار اعلی کا احترام کرنا چاہئے-

سابق سویت یونین کے آخری رہنما میخائیل گورباچف  کہ جنہوں نے افغانستان میں شکست کا تلخ مزہ چکھا ہے کہتے ہیں " اگر امریکہ اور نیٹو، افغانستان سے اپنی افواج باہر نہیں نکالتے تو انہیں ایک اور ویتنام کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے- امریکہ نے دوعشرے قبل مسلح عناصر کو ٹریننگ دی اور اب وہی اس کے لئے وبال جان بن گئے ہیں اور علاقے کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے-

 واضح رہے کہ گیارہ ستمبر دوہزار ایک میں نیوریارک میں ٹوئن ٹاورز پر حملوں کے بعد امریکہ نے القاعدہ کو ان حملوں کا ذمہ دار قراردے کر افغانستان میں دہشت گردی اور طالبان سے مقابلے نیز افغانستان میں امن و استحکام لانے کے بہانے افغانستان پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تھا اور اس وقت سے افغانستان پر امریکہ کا فوجی قبضہ جاری ہے-

دوسری جانب امریکی طیاروں کی بمباری میں افغانستان کی شہری تنصیبات کا تباہ ہونا بھی ملت افغان کے لئے نہایت دردناک امر ہے جس سے افغان عوام کی غربت و افلاس میں اضافہ ہوا ہے جبکہ طالبان بدستور سرگرم عمل ہیں۔ یہاں تک داعش کے تکفیری گروہ نے بھی افغانستان میں اپنی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ یہ مسئلہ اس وجہ سے اہمیت کا حامل ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے باراک اوباما اور ان کی سابق وزیر خارجہ کو داعش کو جنم دینے والوں میں شمار کیا ہے۔

بہرحال امریکہ کو چاہئے کہ افغانستان میں برطانیہ اور سوویت یونین کی ناکامیوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ، عام شہریوں کے قتل عام کے تعلق سے اس ملک کے فوجی حکام اور عوام کے انتباہات پر توجہ دے کیوں کہ افغان عوام نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اغیار کے سخت مخالف ہیں اور ان کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں اور کبھی بھی جارح عناصر کو اپنے گھر میں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے-

ٹیگس