Sep ۲۱, ۲۰۱۷ ۱۷:۵۳ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدہ کی عالمی برادری کی جانب سے حمایت  اور امریکہ کی گوشہ نشینی

اسلامی جمہوریہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں، جو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں منعقد ہوا، ایٹمی معاہدے کو اچھا معاہدہ اعلان کیا گیا اور واشنگٹن کے علاوہ بقیہ فریقوں نے ایٹمی معاہدے کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کی مخالفت پر تاکید کی-

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بدھ کی رات کو اقوام متحدہ کی  جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر، جوہری معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس کے بعد صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے علاوہ گروپ 5+1 کے رکن ممالک نے جوہری معاہدے کے مکمل نفاذ، اس پر مذاکرات نہ کرنے اور تمام فریقین کے اس عالمی معاہدے پر قائم رہنے پر تاکید کی ہے- محمد جواد ظریف نے کہا کہ منعقدہ نشست میں ہم نے امریکی خلاف ورزیوں ، نئی امریکی حکومت کے نامناسب رویوں اور امریکی حکام کے ایران مخالف بے بنیاد الزامات اوربیانات پر بات چیت کی ہے-

نیویارک میں مشترکہ جامع ایکشن پلان کے اجلاس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ، یورپی ممالک ، چین اور روس  ایٹمی معاہدے پر متفق ہیں اور اس کا دفاع کر رہے ہیں- تمام ملکوں نے اس اجلاس میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی معاہدے کا پابند ہےلیکن امریکہ اپنی سیاسی چال بازیوں کے ذریعے اس کوشش میں ہے کہ ایٹمی معاہدے کو، جس کی سلامتی کونسل نے بھی توثیق کی ہے، ایک ناقص سمجھوتہ قرار دے اور اس کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کرائے- مشترکہ جامع ایکشن پلان پر امریکہ کے پابند ہونے کی شرط ، اس کے بارے میں دوبارہ مذاکرات انجام پانا بیان کیا گیا ہے لیکن امریکہ کے اس موقف کی گروپ پانچ جمع ایک اور ایران نے شدید مخالفت کی ہے-

جوہری معاہدہ کسی ایک ملک یا چند ملکوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ عالمی برادری سے متعلق ہے اور کیوں کہ سلامتی کونسل نے اس کی توثیق کی ہے، ایسے حالات میں اس معاہدے سے باہر نکلنا، بین الاقوامی معاہدے سے متعلق ایک ملک کے غیرذمہ دارہونے کو ظاہر کرتا ہے-

امریکہ کا ایک سناریو ٹرمپ کے دور حکومت میں یہ ہے کہ ایٹمی معاہدے کے ضمن میں بےبنیاد دعووں اور الزامات کے ذریعے ایران پر دباؤ بڑھائے-  موجودہ حالات میں ٹرمپ کہ جو کمزور پوزیشن کے ساتھ برسراقتدار آئے ہیں اگر وہ چاہیں کہ سلامتی کونسل کے دائرۂ کار سے باہر نکل کر ایٹمی معاہدے کے بارے میں کوئی اقدام کریں تو انہیں سخت چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑجائے گا- کیوں کہ ایٹمی معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے اور امریکہ، ایٹمی مسئلے میں مذاکرات کا صرف ایک فریق ہے کہ جو بعض تحفظات کی بنیاد پر ایران اور یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آیا - ان تحفظات میں سے ایک ، ایران کے خلاف پابندیوں کا بےنتیجہ ہونا اور ایران کے خلاف پابندی جاری رکھنے میں، یورپی یونین اور دیگر ملکوں کا امریکہ کا ساتھ نہ دینا تھا- ایک اور نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کے پاس ایران کے ایٹمی پروگرام کے پرامن  نہ ہونے کے حوالے سے، کوئی بھی ثبوت نہیں ہے اور اس حقیقت کی امریکہ کے سولہ انٹلی جنس اداروں نے تصدیق بھی کی ہے-

جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے نے بھی اپنی رپورٹوں میں مسلسل یہ ثابت کیا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام آئی اے ای اے کے قوانین کے دائرے میں اور این پی ٹی معاہدے کے مطابق انجام پائے ہیں اور پرامن ہیں۔ اس بناء پر امریکہ کے پاس مشترکہ جامع ایکشن پلان کے دائرے میں، ایٹمی مذاکرات میں شامل ہونے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا- اس لئے امریکہ اپنے اس سیاسی کھیل کو جاری رکھنے کے لئے، بس یکطرفہ اقدامات انجام دے سکتا اور غیر ایٹمی پابندیاں برقرار رکھ سکتا ہے- اس کے ساتھ ہی امریکی حکام نے دو مسئلے پر پوری توجہ مرکوز کر رکھی ہے اس میں سے اول یہ ہے کہ وہ مطمئن ہوجائیں کہ کس حد تک انہیں اس سلسلے میں ملکی سطح پر سیاسی اتفاق رائے حاصل ہے، لیکن ٹرمپ کے خلاف، بڑھتی ہوئی مخالفتوں اور امریکی وعدہ خلافیوں سے لاحق تشویش کے پیش نظر اس طرح کا اجماع اور اتفاق رائے نہیں پایا جاتا ہے-

اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ مطمئن ہوجائے کہ وہ ایران مخالف اپنے اقدامات کے سلسلے میں عالمی سطح پر ہونے والی مخالفتوں کا جواب دہ ہونے پر قادر ہے، اور یہ کہ پابندیوں کے آپشن کی جانب دوبارہ بازگشت ، کیا اس بار امریکہ کے الگ تھلگ ہونے کا سبب نہیں بنے گی ؟ جبکہ ان میں سے بعض پابندیوں سے، قانونی اور اسٹریٹیجک مخالفت ہوتی ہے کہ جو ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں یعنی یورپی یونین ، روس اور چین کے لئے اہمیت رکھتی ہیں- اس لئے ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکی اقدامات کو ممکن ہے وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک اسٹریٹیجک فیصلہ قرار دیا جائے لیکن بہرصورت اس کی ماہیت ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی ہے کہ جو ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے کہ جس کا امریکہ کو جواب دہ ہونا چاہئے- 

صدر مملکت نے بدھ کے روز نیویارک کے دورے کے اختتام پر ایٹمی معاہدے کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کے امریکی مطالبے کےبارے میں کہا کہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے کسی مذاکرات یا اصلاح کی ضرورت نہیں ہے اور امریکی حکام کو ایٹمی معاہدے کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کی فکر اپنے دماغ سے نکال دینی چاہئے- بہرحال اسلامی جمہوریہ ایران کے سامنے ایٹمی معاہدے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے حوالے سے متعدد آپشن ہیں اور وہ ہرگز امریکہ کی ہٹ دھرمی کے سامنے تسلیم نہیں ہوگا- جیسا کہ صدر مملکت نے یہ بات تاکید کے ساتھ کہی ہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے سے ایران پر کوئی دباؤ نہیں آئے گا بلکہ ایران کی پوزیشن عالمی سطح پر ماضی سے بہتر ہوجائے گی اور یہ امریکی حکومت ہے کہ جو رائے عامہ کے دباؤ میں آجائے گی- 

ٹیگس