Sep ۲۳, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۳ Asia/Tehran
  • گروپ 77 کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی حمایت

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف واشنگٹن کے موقف اور الزامات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، جس کے خلاف عالمی سطح پر منجملہ گروپ 77 کی جانب سے شدید نکتہ چینی کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ میں گروپ 77 کے رکن، 134 ممالک نے جمعے کو ایران اور گروپ 1+5 کے مابین ہونے والے جوہری معاہدے کی بھرپورحمایت، اورایران کے خلاف یکطرفہ طور پرعائد پابندیوں کی مخالفت کا اعلان کیا۔ گروپ 77 کے رکن 134 ممالک کے وزراء خارجہ نے ایک بیان منظورکرنے کے ذریعے ایران کے خلاف یک طرفہ طور پر عائد اقتصادی پابندیوں کی مخالفت کرتے ہوئے فوری طور پر ان پایندیوں کے خاتمےکا مطالبہ کیا- اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پرایٹمی سمجوتے کے حوالے سے گروپ 77 کے رکن ممالک کے وزائے خارجہ نے، اختتامی اعلامیہ متفقہ طور پر منظور کیا۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب غلام علی خوشرو نے کل رات کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی صدر ٹرمپ کی متنازع تقریر کے بعد گروپ 77 کے رکن، 134 ممالک کے وزراء خارجہ نے بلند آواز میں جوہری معاہدے کی بھرپورحمایت اورایران کے خلاف یکطرفہ طور پرعائد پابندیوں کی مخالفت کا اعلان کیا۔

امریکہ کا اصل مسئلہ، ایٹمی معاہدے کا اچھا یا برا ہونا نہیں ہے بلکہ امریکہ کی اصل مشکل اسلامی جمہوری نظام سے ہے- کیوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب کے آغاز سے ہی امریکہ کی توسیع پسندیوں کا کھل کر مقابلہ کیا ہے اور تسلط پسند نظام کے مقابلے میں ایران کی پائیداری و استقامت ایک نمونے میں تبدیل ہوگئی ہے- اس وقت امریکہ کا ایک جنگ پسند گروہ، ایٹمی معاہدے سے توسیع پسندانہ مراعات حاصل کرنے کے مقصد سے بہانہ تراشی کے درپے ہے۔ البتہ امریکہ بد عہدی میں مشہور ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ جیسا کہ وہ آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے سے نکل گیا ہے ایٹمی معاہدے سے نکل سکتا ہے- امریکہ نئے عالمی نظام کا دعویدار ہے، جبکہ آب و ہوا کے پیرس معاہدے سے خود کو الگ کرنے کے اپنے فیصلے کے ذریعے امریکہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی قانون کے احترام کا قائل نہیں ہے- 

 ایٹمی معاہدے کے بعد امریکی رویوں میں تبدیلی آئی ہے جبکہ سابق صدر اوباما  یہ دعوی کر رہے تھے کہ ایران کے ساتھ تعاون میں وہ ایٹمی معاہدے کے سمجھوتے کے پابند ہیں کیوں کہ وہ ایٹمی معاہدے کو ایک کامیابی سمجھ رہے تھے لیکن ٹرمپ نے اسے بدترین معاہدے کا نام دیا- اس وقت ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ حالات مزید بدتر ہوتے جا رہے ہیں- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ اگر امریکہ نے ایران مخالف پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھا تو تہران مختصر عرصے میں جامع ایٹمی معاہدے سے باہر نکل جائے گا۔  صدر حسن روحانی نے کہا کہ امریکی حکام کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پابندیوں اور تسلط پسندی کے ناکام تجربات ہی ماضی کی امریکی حکومتوں کو ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لائے تھے اور اگر وہ ناکام تجربات کو دوہرانا چاہتے ہیں تو شوق سے دوہرائیں۔

البتہ امریکہ کا رویہ کچھ ایسا ہے کہ وہ اپنے اقدامات کے ذریعے اس بات کے درپے ہے کہ ایران کو ایٹمی معاہدے سے پسپائی پر مجبور کردے تاکہ ایران، ایٹمی معاہدے سے نکلنے میں پہل کرے- جوہری تخفیف اسلحہ کے ماہر طارق رئوف ریڈیو اسپوٹنیک کے ساتھ انٹرویو میں کہتے ہیں، ایٹمی معاہدے سےایران کے نکل جانے کا براہ راست فائدہ، امریکہ کو پہنچے گا۔  اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کہتے ہیں کہ امریکہ نے یہ ثآبت کر دکھایا ہے کہ نہ ہی وہ ایک اچھا شریک ہے اور نہ ہی قابل اعتماد مذاکرات کرنے والا ملک ہے- انہوں نے کہا کہ دنیا نے حالیہ مہینوں کےدوران اس بات کا کھل کر مشاہدہ کیا ہے کہ امریکہ عالمی معاہدوں کو نظر انداز کر رہا ہے اور جامع ایٹمی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کے علاوہ  اس نے پیرس معاہدے، کیوبا پیکٹ اور آزاد تجارتی معاہدے نفٹا کو بھی پامال کردیا ہے اور جو افراد طاقت ، دھمکی اور پابندی کے ہتھکنڈے استمعال کرنے کے درپے ہیں ، درحقیقت وہ ماضی کے توہمات کے اسیر ہیں اور خود کو امن کے فوائد سے محروم کر رہے ہیں-

رہبرانقلاب اسلامی نے بھی حال ہی میں پولیس اکیڈمی میں پاسنگ آوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر تاکید فرمائی کہ امریکیوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ ایران کے عوام ٹھوس اور اصولی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنے اہم ترین قومی مفادات سے پسپائی کا لفظ ، اسلامی جمہوریہ ایران کی لغت میں موجود نہیں ہے۔

ٹیگس