Oct ۰۷, ۲۰۱۷ ۱۷:۰۷ Asia/Tehran
  • ایران اپنی دفاعی صلاحیت پر کسی دباو اور حدبندی کو تسلیم نہیں کرے گا: ظریف

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہمارے میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ ہی ہم اپنی دفاعی صلاحیت پر دبا‎‎ؤ یا کسی قسم کی پابندی کو تسلیم کریں گے۔

ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جمعہ کو امریکی جریدے نیوز ویک کے ساتھ انٹرویو میں اسلامی جمہوریہ ایران کی میزائلی اور دفاعی صلاحیتوں کے تحفظ کی ضرورت پر تاکید کی- ظریف نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران کے بیلسٹک میزائل ، ایٹمی ہتھیاروں کو لے جانے کے لئے تیار نہییں کئے گئے ہیں کہا کہ ایران کے میزائل تجربے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہیں اور یہ تجربے محض دفاعی ہیں- انہوں نے کہا کہ ایران کے میزائل پروگرام کا مقصد ملکی دفاع ہے اور ان میزائلوں میں جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت نہیں ہے-

روئٹرز نے بھی جمعہ کو اس بات کا دعوی کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے میزائل پروگرام کے بارے میں مذاکرات کے لئے تیار ہے-  ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے روئٹرز نیوز ایجنسی کے اس دعوے کو کہ تہران اپنے دفاع کے حوالے سے میزائل پروگرام کے بعض پہلو پرمذاکرات کے لئے تیار ہے، سختی سے مسترد کردیا- قاسمی نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ملکی دفاع کے لئے میزائل پروگرام کو اپنا قانونی حق سمجھتا ہے اور یقینا میزائل پروگرام کے فروغ کا عمل دفاعی حکمت عملی اور پہلے سے تیار شدہ منصوبوں کے تحت جاری رہے گا-

امریکہ نے ہمیشہ ایران کے میزائل پروگرام کو محدود کرنے پر زور دیا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت مختلف سیناریوکے ذریعے اس ہدف کو حاصل کرنے میں بہت زیادہ کوشاں ہے اسی تناظر میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا ہکبی سینڈرز نے کہا ہے کہ ٹرمپ ایران کے میزائل تجربات کے حوالے سے عنقریب ہی اپنے نئے موقف کا اعلان کریں گے- امریکہ کا یہ دعوی ہے کہ ایران کے میزائل تجربات نے ایٹمی معاہدے کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا ہے - یہ ایسے میں ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی منظوری کے بعد ، سلامتی کونسل کی منظور شدہ قرارداد میں ایران کو قانونی اور روایتی فوجی سرگرمیوں سے نہیں روکا گیا ہے۔ 

ایران اپنی دفاعی طاقت کو جتاتا نہیں ہے، نہ وہ کسی ملک کے لئے خطرہ ہے اور نہ ہی کسی کے خلاف جارحیت کا ارادہ رکھتا ہے لیکن اگر اس کے لئے خطرہ پیدا ہوجائے اور وہ اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا ہے اور خطے کو بدامنی کا سامنا ہے تو وہ اس خطرے کے مقابلے کے سلسلے میں ایک لمحے کے لئے بھی شک نہیں کرے گا۔ 

اگر خطے اور ایران میں بدامنی پھیلانے پر مبنی امریکہ اور خطے کے بعض ممالک کی سازشوں اور ان کے اہداف پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایران کی میزائلی دفاعی صلاحیت اور اس تیاری کی اہمیت زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے۔ امریکہ نے حالیہ ایک عشرے کے دوران عملی طور پر ایران کے لئے سیکورٹی مشکلات پیدا کی ہیں اور اس نے خطے خصوصا شام، یمن اور عراق میں سعودی عرب کے ذریعے پراکسی وار شروع کر کے ایران کے آس پاس بدامنی پیدا کر دی ہے اس ذریعے سے وہ خطے کے اجتماعی استحکام میں ایران کے کردار کے آگے سوالیہ نشان لگانے کے درپے ہے لیکن امریکہ کو اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی حاصل نہ ہوئی کیونکہ شام اور عراق کی صورتحال میں ایران کے موثر کردار کی وجہ سے علاقائی امور میں ایران کا بلند مقام ثابت ہوگیا۔ یہاں تک کہ امریکہ کے حکام اور سیاسی مبصرین کو اس بات کا  اعتراف کرنا پڑا کہ ایران علاقے کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ علاقائی بحرانوں پر قابو پانے میں ایران کی بے مثال کامیابیوں اور دفاعی میدان میں اس کی عظیم صلاحیت کو امریکہ اس علاقے سے متعلق اپنے اندازوں میں پیش نظر رکھتا ہے۔ البتہ ایران کی میزائل صلاحیت کے بارے میں امریکہ غلط طور پر یہ تصور کرتا ہے کہ وہ مشترکہ جامع ایکشن  پلان کو ایک حربے کے طور پر استعمال کر کے ایران کو اصولی مواقف اور میزائل صلاحیت سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بڑی طاقت ہونے کا تقاضا استحکام اور قیام امن میں مدد دینا بھی ہے اور علاقے میں ایران کی دفاعی کارکردگی اسی خصوصیت کی حامل ہے۔

ٹیگس