Oct ۰۹, ۲۰۱۷ ۱۷:۳۷ Asia/Tehran
  • ایران اور ترکی سے عراقی وزرات خارجہ کی درخواست

عراقی وزارت خارجہ نے بغداد میں ایران اور ترکی کے سفارتخانوں کو سرکاری خطوط ارسال کرکے تہران اور انقرہ سے کہا ہے کہ وہ عراقی کردستان سے ملنے والی اپنی سرحدوں کو بند اور کردستان کی مقامی انتظامیہ کے ساتھ تیل کی تجارت معطل کردیں-

 عراقی کردستان کی مقامی انتظامیہ کے سربراہ مسعود بارزانی کے اصرار پر علیحدگی کے لئے ہوئے ریفرنڈم کے بعد اربیل اور بغداد کے درمیان کشیدگی کافی بڑھ گئی ہے - السومریہ نیوز ایجنسی نے خبردی ہے کہ عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد محجوب نے جمعے کو ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ ایران اور ترکی کے ساتھ عراقی وزارت خارجہ کا صلاح و مشورہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کردستان سے ملنے والی سرحدوں کا انتظام ، عراق کی مرکزی حکومت کے حوالے نہیں ہوجاتا - انہوں نے کہا کہ عراقی وزارت خارجہ نے ایران اور ترکی سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اربیل کے ساتھ تیل کی تجارت روک دیں اور اس سلسلے میں عراقی حکومت دونوں ملکوں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے- واضح رہے کہ پچیس ستمبر کو عراقی کردستان کے علاقے میں اس علاقے کے سربراہ مسعود بارزانی کے اصرار پر ، کردستان کی علیحدگی سے متعلق ہوئے ریفرنڈم کے بعد عراق کی مرکزی حکومت اور علاقے کے ملکوں کے ساتھ عراقی کردستان کے حکام کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں-

عراقی وزرات خارجہ نے ایران اور ترکی سے ایسی حالت میں یہ درخواست کی ہے کہ اس سے قبل عراق کی مرکزی حکومت ، ترکی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومتوں نے عراقی کردستان کے علاقے کے لئے اپنی پروازیں بند کر رکھی ہیں- اور عراقی کردستان سے ملحقہ ترکی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی سرحدوں پر سخت حفاظتی تدابیر اختیار کی گئی ہیں- عراقی کردستان میں ریفرنڈم ہونے کے فورا بعد عراق کی مرکزی حکومت اور علاقے کے ملکوں نے اس علاقے کے لئے تنبیہی اقدامات کو اپنے ایجنڈے میں قرار دیا- 

واضح رہے کہ عراقی کردستان کی بعض جماعتوں نے گذشتہ سات جون کو ایک اجلاس میں جس کی صدارت عراقی کردستان کی مقامی انتظامیہ کے سربراہ مسعود بارزانی نے کی تھی اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ پچیس ستمبر کو عراقی کردستان کو عراق سے الگ کرنے کے لئے ایک ریفرنڈم کرائیں گے۔اگرچہ عراق کی بیشتر سیاسی جماعتوں، حکومت اور علاقے اور دنیا کے مختلف ملکوں نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی لیکن اس کے باوجود عراقی کردستان کی مقامی انتظامیہ کے سربراہ مسعود بارزانی کے اصرار پر پچیس ستمبر کو یہ ریفرنڈم کرائے گئے-

عراقی کردستان کے علاقے میں آزاد سمندر نہیں ہے اور یہ علاقہ سرحدی جغرافیے کے لحاظ سے چار ملکوں عراق، ترکی ، ایران اور شام میں محصور ہے اور ایسے حالات میں بنیادی طور پر عراقی کردستان کےعلاقے کی علیحدگی معنی نہیں رکھتی- اس صورتحال میں عراقی کردستان کے علاقے پر اقتصادی لحاظ سے گہرے اثرات مرتب ہوں گے - اس علاقے کی آمدنی کا اہم ترین ذریعہ تیل کی فروخت ہے اور یہ علاقہ روزانہ تقریبا ساڑھےتین لاکھ بیرل یومیہ تیل برآمد کرتا ہے-  لیکن اس کا یہ تیل ایران اور ترکی کی سرحدوں سے دیگر ملکوں میں بھیجا جاتا ہے- سرحدوں کا بند کیا جانا کردستان کو تیل کی فروخت سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ عراقی حکومت نے بھی، کردستان کے علاقے کی تیل کی آمدنی سے شدید وابستگی کے پیش نظر، دیگر ملکوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ کردستان سے تیل کی خریداری نہ کریں- ترکی، عراقی کردستان کے تیل کا اصلی خریدار ہے، اس وقت کہ جب ترکی نے اپنی سرحدیں کردستان پر بند کردی ہیں فطری طور پر وہ کردستان سے تیل بھی نہیں خریدے گا - اس لئے مسعود بارزانی کا ریفرنڈم کرانے کا یکطرفہ اقدام، کردستان کے علاقے میں مشکلات میں اضافے کا سبب بنے گا- 

مغربی ممالک خاص طور پرامریکہ اور بعض یورپی ملکوں کے موقف سے، کہ جو عراقی کردستان کے ساتھ تیل کی خریداری کرتے ہیں، اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ ممالک کردستان میں ہوئے ریفرنڈم کے مخالف نہیں ہیں- اگرچہ امریکہ اور یورپی ممالک، اپنی اعلان کردہ پالیسی میں متحد عراق پر تاکید کرتے ہیں پھر بھی ان ملکوں نے ریفرنڈم کو مسترد نہیں کیا ہے اور وہ ایسی راہ میں قدم بڑھا رہے ہیں کہ جس پر اسرائیل گامزن ہے- عراقی کردستان کے علاقے کے ساتھ صیہونی حکومت کے اقتصادی اور فوجی تعلقات قائم ہیں اور ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ عراقی کردستان کی علیحدگی کا منصوبہ بھی اسی دائرے میں ہے- دوسری جانب یہ مسئلہ، مسئلہ فلسطین سے بھی توجہات کم کرنے کا باعث بنا ہے-

 

ٹیگس