Oct ۱۳, ۲۰۱۷ ۱۸:۱۲ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے میں ایران کی برتری اور امریکہ کی بوکھلاہٹ

ایران اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کا وقت قریب آنے کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلمینٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی اسٹریٹیجی کے بارے میں ہمیں کوئی اضطراب اور پریشانی نہیں ہے اور ٹرمپ حکومت کے اقدامات کے جواب میں ہم نے بھی سارے آپشنز پر غور کرلیا ہے-

وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے اعلان کے مطابق ٹرمپ جمعے کی رات کو تہران کے وقت کے مطابق سوا آٹھ بجے ایران اور ایٹمی معاہدے کے تعلق سے امریکی اسٹریٹیجی کا اعلان کریں گے- ٹرمپ کی تقریر کا ایک حصہ ایران کی علاقائی پالیسی ، اور دوسرا حصہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکی موقف سےمتعلق ہوگا- ایٹمی معاہدے کے بارے میں جو علامات ظاہر ہیں ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ ، مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کی ایران کی جانب سے پابندی کئے جانے کی تصدیق نہیں کریں گے اور جامع ایٹمی معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اس بارے میں فیصلہ کا اختیار کانگریس کے حوالے کر دیں گے۔

  ٹرمپ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ کانگریس کے تعاون سے ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں سختیاں بڑھائے اور ایران کے لئے معاہدے کےاقتصادی فوائد کو کم کردے- ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کو مسترد کیے جانے کی صورت میں کانگریس کے پاس ساٹھ روز کا وقت ہو گا کہ وہ ایران کے خلاف ایٹمی پابندیاں دوبارہ سے عائد کرنے کے بارے میں فیصلے کا اعلان کرے۔ ٹرمپ کی تقریر کے دوسرے حصے میں ایران کی علاقائی پالیسی مدنظر ہوگی تاکہ وہ ایرانو فوبیا کے منصوبے کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنے کے ذریعے، علاقے میں امریکہ اور اس کے حامیوں کی ناکامیوں پر پردہ ڈالیں - امریکہ گذشتہ چھ برس کے عرصے میں شام کے بحران سے اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے-

شام میں امریکہ کی شکست و ناکامی نے مغربی ایشیاء کے اسٹریٹیجک علاقے میں امریکیوں کے طویل المدت منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ہے اور اسی سبب سے وہ سخت نالاں ہیں اور اب ان کی کوشش ہے کہ اپنے بیہودہ اور من گھڑت الزامات کے ذریعے ایران پر دباؤ میں مزید شدت لائیں- امریکی یونیورسٹی پرینسٹن کے سینئر محقق حسین موسویان نے جمعرات کو الجزیرہ ٹی وی چینل کے ساتھ گفتکو میں، ایران کے ساتھ امریکی حکومت کی دشمنی میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس دشمنی کی جڑیں، علاقے میں امریکہ کے حمایت یافتہ دہشت گرودوں منجملہ داعش کے مقابلے میں ایران کو حاصل ہونے والی پے در پے کامیابیوں میں پیوست ہیں-

اس کے علاوہ ایٹمی معاہدے کے میدان میں اس وقت ایران کو ٹرمپ حکومت کے مقابلے میں برتری حاصل ہے- امریکہ کے علاوہ ایٹمی معاہدے میں شامل گروپ پانچ جمع ایک کے سبھی ملکوں نے اس معاہدے کے باقی رہنے کی حمایت کی ہے اور ٹرمپ اس معاہدے کے تعلق سے اپنا نیا فیصلہ سنانے میں تنہا ہیں- اسی وجہ سے ایران کی مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے جمعرات کی شام کو تہران میں نامہ نگاروں کے اجتماع میں کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ عالمی سطح پر ٹرمپ حکومت کے موقف کو سنجیدہ لیا جائے گا- اسی تناظر میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی اور جرمنی کے وزیر خارجہ زیگمار گیبریل نے بھی بدھ اور جمعرات کو ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ ٹیلیفونی گفتگو میں ، ایٹمی معاہدے پر، تمام فریقوں کے کاربند رہنے پر تاکید کی ہے-

  مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کی منظوری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہوئی ہے اور یہ ایک عالمی معاہدہ ہے، کوئی یکطرفہ معاہدہ نہیں ہے، اس لئے امریکہ یکطرفہ طورپر اس معاہدے سے خارج نہیں ہوسکتا - جیسا کہ صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے امریکا کے این بی سی ٹیلی ویژن چینل سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جو سب کے مفاد میں ہے اور اگر امریکہ اس معاہدے سے باہر نکلتاہے تو پھر دنیا کے ممالک امریکہ پر بھروسہ کرنا بند کردیں گے اور اس سے امریکا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا-

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایٹمی معاہدہ عالمی سطح پر تعمیری تعاون کا بہترین ذریعہ ہے کہاکہ ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکل جانے سے ایک نئی صورتحال پیدا ہوگی اور اس صورت میں ایران کے پاس بھی مختلف آپشنز ہوں گے اور وہ اپنے مسائل اور مفادات کے پیش نظر ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گا- یہ بات سب پر واضح ہے کہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے دو سال بعد اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے تعلق سے تمام وعدوں کی پابندی کئے جانے کی یقین دہانی کرائے جانے کے باوجود، امریکہ ابھی بھی گذشتہ برسوں کے دوران ہونے والے ایک اہم ترین اور تاریخ ساز معاہدے کے بارے میں کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا ہے- جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس بوکھلاہٹ اور حیرانی کی وجہ بھی امریکہ کے اندر، سیاسی طاقتوں کے درمیان پائی جانے والی رقابت ہے-

        

ٹیگس