Nov ۲۲, ۲۰۱۷ ۱۵:۳۰ Asia/Tehran
  • داعش کے بعد سیاسی مذاکرات کے تین ایجنڈے

ایران ، روس اور ترکی کے سربراہ داعش کے بعد علاقے کے حالات کے بارے میں شہر سوچی میں ایسے عالم میں سہ فریقی مذاکرات شروع کر رہے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان مذاکرات کا کچھ واضح ایجنڈا ہونا چاہئے۔

پہلے مرحلے میں ان ممالک کے سربراہ کہ جنھوں نے اس سے پہلے آستانہ میں شامی گروہوں کے درمیان مذاکرات کئے تھے انھیں کچھ ایسی تدابیر اختیار کرنا چاہئے کہ قومی مذاکرات کا یہ سلسلہ بیرونی مداخلت کے بغیر بہترین شکل میں جاری رہے اور جنگ سے بے حال اس ملک میں قومی اتحاد حکومت کے برسراقتدار آنے کی زمین ہموار ہو-

اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ اگر شام سمیت علاقے کے ممالک میں گہرے سیاسی اختلافات جاری رہے تو دہشتگردوں کو سیاسی و عسکری میدان میں دوبارہ واپسی کا موقع مل جائے گا-

دوسری جانب ان تینوں ممالک کو چاہئے کہ ایک دوسرے کی مدد سے علاقے سے باہر کے بازی گروں کو دور رکھیں اور واشنگٹن، پیرس اور لندن کی مداخلتوں کی وجہ سے علاقے میں تشدد اور جھڑپوں کی نئی لہر شروع نہ ہونے دیں- عالمی رائے عامہ کے سامنے اب بھی یہ سوال درپیش ہے کہ رقہ جنگ میں امریکہ نے داعش کے کمانڈروں کی بھاگنے میں مدد کیوں کی ؟ اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بقول وائٹ ہاؤس نے کیوں دوہزارتین میں عراق جنگ کے بعد داعش کی تشکیل کی زمین ہموار کی ؟ وائٹ ہاؤس نے داعش کے مکمل خاتمے کے صرف ایک دن پہلے سلامتی کونسل میں شامی حکومت کے خلاف قرارداد مذمت کو کیوں آگے بڑھایا؟ اور وہ دہشتتگردوں کے خلاف جنگ میں کیوں شامل نہیں ہوا؟

تیسرا ایجنڈا علاقے کی رجعت پسند عرب حکومتوں کی تشدد  پسندی کو کنٹرول کرنا ہونا چاہئے۔ ریاض، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کسی حد تک کویت کی حکومتیں بھی کہ جو بہارعرب کی لپیٹ میں آنے سے بچ گئیں اور داعش پرسرمایہ کاری کرکے دہشتگردی کا ہتھکنڈہ استعمال کرکے عوامی انقلابوں کی راہ ہموار نہیں ہونے دی، آج جب داعش کی مکمل شکست کو دیکھ رہی ہیں تو خوف زدہ ہیں کہ کہیں انھیں اندرون ملک داخلی سیاسی تبدیلیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے-

ریاض میں داخلی کشیدگی کہ جو اس ملک میں گرفتاریوں کی لہر کا باعث بنی ہے یہ ثابت کرتی ہے کہ سعودی عرب گھٹن کے ماحول اور گرفتاریوں سے کس حد تک نقصان اٹھا سکتا ہے- بنا برایں وہ  قطر یا لبنان میں کشیدگی کی نئی لہر شروع کرکے اپنے داخلی اختلافات پرقابوپانے کی کوشش کررہا ہے-

ایران ، روس اور ترکی کو چاہئے کہ سوچی مذاکرات اور اس کے بعد کے مذاکرات علاقے کی جنگ پسند حکومتوں کو نئی کشیدگی نہ پیدا کرنے دیں اور دہشتگردوں کی واپسی کا راستہ ہموار نہ ہونے دیں- تجربے نے ثابت کردکھایا ہے کہ دہشتگرد، ہمیشہ ہی چاہے وہ عراق ہو شام یا لیبیا ۔ داخلی اور بیرونی جنگوں کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں- بنا برایں جنگ کی آگ جتنی شعلہ ور ہوگی، دہشتگردوں کے لئے سیاسی پناہ کا امکان اتنا ہی بڑھے گا-

فطری امر ہے کہ جنگ سے بے حال ممالک کی تعمیرنو میں مدد، پناہ گزینوں کی وطن واپسی ، داعش سے نقصان اٹھانے والے ممالک کی توسیع وترقی کے لئے عالمی مدد کا حصول سوچی مذاکرات کے لئے نیا باب ہوسکتے ہیں-

سہ فریقی علاقائی مذاکرات سے مغربی ممالک کا خوف زدہ ہونا یا شک کی نگاہ سے دیکھنا بھی ایک فطری چیز ہے کیونکہ یہ مذاکرات کہ جو داعش کے خلاف میدان جنگ میں استقامت جاری رکھنے کے تناظر میں انجام پارہے ہیں، اس نے امریکہ و ویورپ کو تنہا کردیا ہے- اس کے باوجود چونکہ داعش کی شکست میں ایران، روس اور کسی حد تک ترکی نے بھی کردار ادا کیا ہے، مغربی ممالک ان مذاکرات میں روڑے اٹکانے اور کشیدگی پیدا کرنے والی اسٹریٹیجی پرعمل کرنے کی کوشش کریں گے تاہم دنیا انھیں ایسا نہیں کرنے دے گی -

ٹیگس