Nov ۲۴, ۲۰۱۷ ۱۹:۳۴ Asia/Tehran
  • ضرورت پڑنے پر ہرجگہ کفر و استکبار کا مقابلہ کریں گے: رہبر انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعرات کو محبان اہلبیت اور تکفیریوں کے مسئلہ کے زیر عنواں تہران میں منعقدہ عالمی کانفرنس کے شرکا اور مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ عراق اور شام میں داعش کا کام تمام ہو گیا ہے لیکن دشمن کی چالوں سے پوری طرح ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے-

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عالم اسلام، آج عالم کفر اور استکبار کا مقابلہ کرنے کی پوری طاقت رکھتا ہے اور اسلامی شریعت کے مکمل نفاذ کا خواہاں ایران، دشمنان اسلام کے خلاف کامیابی کے حصول کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، عالمی سامراج اور صیہونی محاذ کی جانب سے مسلمانوں کے درمیان جنگ اور تنازعات پیدا کرنے کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے ، اور حکم الہی سے وہ اس جنگ میں کامیاب بھی رہے گا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پچھلے چالیس برس کے دوران ایران کے خلاف امریکہ اور صیہونیوں کی سازشوں، دباؤ اور پابندیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کفر و استکبار کے مقابلے میں مدد کی ضرورت ہو گی، اسلامی جمہوریہ ایران مدد کرے گا اور اس معاملے میں کسی بھی چیز کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکہ، صیہونیزم اور ان کے دم چھلے، اسلام دشمنی سے باز نہیں آئیں گے اور ہوسکتا ہے کہ وہ خطے میں داعش اور اسی طرح کی دوسری سازشیں تیار اور ان پر عملدرآمد کی کوشش کریں۔ 

رہبر انقلاب اسلامی کا یہ بیان دو اہم اور کلیدی نکتے پر تاکید ہے کہ جو کسی خاص زمان و مکان سے مختص نہیں ہے۔ ان دو نکات میں سے ایک کی جڑ، تاریخ اسلام  اور علاقے میں استعماری دھڑوں کے وجود میں پیوست ہے کہ جو امت مسلمہ کے درمیان وحدت کے اصول سے متعلق ہے۔ اور دوسرا نکتہ ان خطروں اور دھمکیوں کی ایک بار پھر شناخت کی ضرورت پر تاکید ہے کہ جن خطرات اور دھمکیوں سے آج عالم اسلام دوچار ہے۔ یہ خطرے ، جیسا کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ اسلامی ملکوں میں اثرو رسوخ پیدا کرنے اور آخر کار عالم اسلام کے حصے بخرے کرنے نیز امت مسلمہ کو جنگ ونفاق کی آگ میں جھونک دینے کے لئے وجود میں لائے گئے ہیں۔

اس نفاق اور تفرقے کا سرچشمہ ، مسموم تکفیری اور وہابی افکار ہیں کہ جس کی ایک انتہائی گھناؤنی مثال ، حال ہی میں داعش اور سلفی و تکفیری دھڑوں کا علاقے میں وجود میں آنا اور فتنہ برپا کرنا ہے۔ داعش کا فتنہ تو مزاحمتی گروہوں ،  مدافعین حرم اور شام و عراق کی حکومت اورعوام کی مزاحمت و استقامت اور جاں فشانیوں کے باعث ختم ہوگیا اور اس دہشت گرد گروہ کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا ۔ لیکن ابھی یہ خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے اور ایک بار پھر نئے فتنے وجود میں آنے کا امکان موجود ہے۔ کیوں کہ داعش اور دہشت گرد گروہوں  کی ابھی لیبیا، ٹیونس، مصر، صومالیہ اور نائیجیریا اور بہت سے دیگر ملکوں میں بیخ کنی نہیں کی گئی ہے۔ اور امت مسلمہ ، اور خاص طور پر فلسطینیوں کے لئے سب سے اہم مسئلہ ، علاقے میں سرطانی پھوڑا اور ناسور ، غاصب صیہونی حکومت کا وجود ہے-

  چنانچہ رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا اولین مسئلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین ہی دشمن پر غلبہ پانے کی کنجی ہے کیونکہ کفر، سامراج اور صیہونیزم کے محاذ نے فلسطین جیسے اسلامی ملک پر غاصبانہ قبضہ کر کے، اسے خطے کے ملکوں کی سلامتی میں رخنہ اندازی کا اڈہ بنا رکھا ہے لہذا اس سرطانی پھوڑے اسرائیل کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور تنازعات کو ہوا دینے کا اصل مقصد اسرائیل کے گرد سیکورٹی حصار قائم کرنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جس دن فلسطین، فلسطینی عوام کی آغوش میں واپس آ جائے گا اس دن عالمی سامراج کی کمر ٹوٹ جائے گی اور ہم اس مقصد کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔

 

ٹیگس