Feb ۱۸, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۹ Asia/Tehran
  • اقوام متحدہ میں مغربی حکومتوں کے پروپگنڈے اور سعودی عرب کے جرائم میں شدت

یمن کے خلاف سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں کے تازہ ترین حملے میں، متعدد بچوں اور عورتوں سمیت اٹھارہ عام شہری شہید ہوگئے۔ یہ حملہ شہر کتاف کے العقیق علاقے پر کیا گیا۔

مرنے والوں میں ریسیکیو اہلکار بھی شامل ہیں ۔ یمن پر سعودی عرب کے جاری جارحانہ حملوں کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں اقوام متحدہ کی ماہرین کی کمیٹی نے حال ہی میں سلامتی کونسل میں ایک رپورٹ ارسال کرنے کے ذریعے سعودی اتحاد کے ہاتھوں جنگی جرائم کے باعث بنیادی تنصیبات کی مکمل نابودی پر تاکید کی ہے اور اس ملک میں انسانی المیہ رونما ہونے کی بابت خبردار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کی کمیٹی نے یہ رپورٹ ایسے میں سلامتی کونسل کو ارسال کی ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اقوام متحدہ کے لچکدار موقف کی بناء پر یمن میں سعودی اتحاد کے منظم جرائم  جاری ہیں۔

درحقیقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی مبہم اور غیرواضح قراردادوں کے ذریعے سعودی اتحاد کو یمن کے خلاف جنگ جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے اور یمن کو موجودہ بدترین حالات سے دوچار کردیا ہے۔ اس سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بہت سے موارد میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے توسط سے پٹروڈالرز کی صورت میں بڑی بڑی رقمیں دیا جانا، یمن کے المناک واقعات کے تعلق سے اقوام متحدہ کی رپورٹیں منظر عام پر نہ آنے کا باعث بنی ہیں۔ اس کے علاوہ یمن کے انسانی بحران کو ہلکا بناکر پیش کرنے اور سعودی اتحاد کے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے سبب، عملی طور پر یمن کی جنگ میں مزید شدت پیدا ہوئی ہے اور جنگ کو ہوا ملی ہے۔

یمن کے بحران کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بے عملی کی اصلی وجوہات بہت واضح ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ممالک ہیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر سعودی اتحاد کے ملکوں کو ہتھیار برآمد کر رہے ہیں تاکہ جنگ کے جاری رہنے اور اس میں شدت آنے سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔ مغربی حکومتیں منافع سے سرشارہتھیاروں کی فروخت کا کاروبار کرکے، ایک حقیقی جنگ میں اپنے نئے ہتھیاروں کے تجربے کر رہی ہیں۔ لیکن ان حمایتوں کے انکشاف اور مغربی حکومتوں کے مذموم عزائم کے خلاف عالمی سطح پر ردعمل سامنے آیا ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی اتحاد ، مغربی ملکوں سے وسیع پیمانے پر فوجی امداد حاصل کرنے کے باوجود یمن کی عوامی مزاحمت کے سامنے ناکام رہا ہے۔ ان مسائل نے سعودی اتحاد اور اس کے حامیوں کو اس امر پر مجبور کیا ہے تاکہ وہ مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے، مغربی ملکوں کی جانب سے سعودی اتحاد کو ملنے والی ہمہ جانبہ امداد سے عالمی رائے عامہ کی توجہ موڑ دیں۔ 

واضح رہے کہ سعودی عرب کی سرکردگی میں بعض عرب ملکوں کے اتحاد نے چھبیس مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن کے مظلوم عوام کو اپنی وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ اس جارحیت کے دوران بے گناہ اور نہتے یمنی بچوں اور عورتوں کا قتل، اس ملک کی اسّی فیصد سے زائد بنیادی تنصیبات کی تباہی اور یمنی عوام کے لیے کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت اس جارحیت کا صرف ایک پہلو ہے۔  اس جارحیت کا ایک اور پہلو یمن کا ہوائی اور بحری محاصرہ ہے کہ جس کے نتیجے میں یمن کے عوام خاص طور پر بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی سرکردگی میں قائم اتحاد نے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی خاموشی کے سائے میں یمنی بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کے لیے ممنوعہ ہتھیار بھی استعمال کئے ہیں جن میں کلسٹر بم بھی شامل ہیں۔

جنگ یمن کی مختلف رپورٹیں اقوام متحدہ سمیت سب کے لیے واضح طور پر آشکار کرتی ہیں کہ سعودی اتحاد نے جنگ کے زمانے میں بچوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا ہے اور یمنی بچوں کا ممنوعہ ہتھیاروں کے ذریعے قتل عام کیا جا رہا ہے۔ بھاری اور ممنوعہ ہتھیاروں سے مارے جانے والے یمنی بچوں کے اعداد و شمار اور شدید غربت میں یمنی عوام کی موجودہ زندگی، دنیا میں رائے عامہ کی قضاوت اور فیصلے کے لیے زندہ ثبوت ہے- اقوام متحدہ جیسے ذمہ دار ادارے کو بڑی طاقتوں اور ان کے حامیوں نے لونڈی بنا کر رکھ لیا ہے۔ اقوام متحدہ کا آزادی کے ساتھ کام نہ کرنا، اپنے فرائض پرعمل کرنے میں اس ادارے کی بنیادی کمزوری سمجھا جاتا ہے اور جب تک یہ رویہ جاری رہے گا عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری پوری ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔

ٹیگس