Feb ۱۹, ۲۰۱۸ ۱۶:۱۷ Asia/Tehran
  • ایٹمی سمجھوتہ، رہبر انقلاب کی نگاہ میں

ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے بیانات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیاں عقل و منطق اور امریکی اہداف کی شناخت و تجربے کی بنیاد پر ہیں-

رہبر انقلاب اسلامی نے اتوار کو شمال مغربی ایران میں واقع اہم شہر تبریز کے مومن و انقلابی عوام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی وعدہ خلافیوں اور خباثتوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ ہم نے ایٹمی معاملے میں غیرملکیوں پربھروسہ کرنے کا نتیجہ دیکھ لیا اور ایٹمی مذاکرات میں ان پراعتماد کیا لیکن ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا-

امریکہ پرایران کا عدم اعتماد صرف ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد گذشتہ تجربات ، اس کے موجودہ رویے اوراس کے تسلط پسندانہ اہداف کے حقیقت پسندانہ تجزیہ پر ہے-

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایٹمی سمجھوتہ امریکہ کی خلاف ورزیوں اور رخنہ اندازیوں کی بنا پر اپنے طے شدہ اہداف حاصل نہیں کرسکا اور آج کل عالمی تشویش کا باعث بھی بن گیا ہے اور اس سلسلے میں تشویش سنائی دینے لگی ہے-

اس وقت ایٹمی سمجھوتے کو انجام پائے پچیس مہینے گذررہے ہیں جبکہ امریکہ کی رخنہ اندازیاں اور وعدہ خلافیاں سب پرعیاں اور ثابت ہوچکی ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کھوکھلے وعدوں کے سہارے اپنی توانائیاں بلاسبب توقعات میں صرف نہیں کرسکتا - ملت ایران کے حال و مستقبل کے لئے جو چیز اہم ہے وہ داخلی صلاحیتوں خاص طور سے ملک کے معاشی میدان میں اپنی گنجائش و توانائیوں سے استفادہ کرنا ہے اور رہبر انقلاب اسلامی کے بقول ، ملک کو خیالی باتوں کی وجہ سے معطل نہیں رکھنا چاہئے-

امریکہ اورفرانس سمیت بعض یورپی ممالک کا رویہ اور رخنہ اندازیاں ایٹمی مسئلے سے بڑھ کر اب ایٹمی موضوع میں سرایت کرگئی ہیں اور اس کا مطلب مداخلت، منھ زوری اور ایران کو اندر سے کمزور کرنا ہے-

بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ نگار ڈاکٹرمراد عنادی نے ایران سے شائع ہونے والے روزنامہ جام جم میں ایٹمی سمجھوتے کو خراب کرنے کی امریکی کوشش کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : اگرچہ ٹرمپ نے پابندیوں کو فی الحال معلق کرنے پر دستخط کردیئے ہیں اور ایٹمی سمجھوتے سے باہر نہیں نکلے ہیں لیکن مرحلہ وار پالیسی کے تحت اسے لاحاصل بنا دیا ہے- ایٹمی سمجھوتے کو دفن کرنے کے لئے وائٹ ہاؤس اور کانگریس نے اپنے کھیل میں اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ایٹمی سمجھوتے کے ماسوا پابندیوں کو سخت کرکے پابندیوں کی اسٹریٹیجی پرزور دے - امریکہ کہ جس نے انیس سو اناسی سے ایران کے خلاف کانگریس کی منظورشدہ ابتدائی پالیسیوں کو جاری رکھا ہے، کاٹسا ایکٹ کے تحت ( Countering America’s Adversaries Through Sanctions Act) نئی پابندیوں اور ایران کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی یا دہشتگردی کی حمایت کے بے بنیاد دعوے کے بہانے ثانوی پابندیوں کو بھی نئی روش سے جاری رکھا اوراسے سخت کررہا ہے-

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران سے امریکہ کے مطالبات صرف غنڈہ ٹیکس کی وصولی تک ہی محدود رہیں گے تو اس کا جواب پوری طرح واضح ہے - امریکہ ملت ایران پردوبارہ تسلط حاصل کرنا چاہتا ہے-

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے ڈیڑھ برس پہلے بھی اپنے ایک بیان میں اس موضوع کا نہایت گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ ایٹمی سمجھوتہ ہمارے لئے ایک نمونہ ہے، ایک تجربہ ہے - بظاہر وہ وعدہ کرتے ہیں ، چرب زبانی سے نرمی سے بات کرتے ہیں لیکن عملی طور پرسازش کرتے ہیں ، خراب کرتے ہیں، کاموں کی پیشرفت میں رکاوٹ ڈالتے ہیں-

لیکن امریکہ کو تجربات سے سمجھ لینا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایسا راستہ اختیار کرے گا کہ جواس کے حال اور مستقبل کے مفادات کی ضمانت فراہم کرے اور ایٹمی سمجھوتے میں بھی امریکی سیناریو کو مدنظر رکھتے ہوئے جوابی اقدامات اور پالیسیاں اختیار کرے گا-

ٹیگس