Mar ۰۱, ۲۰۱۸ ۱۷:۲۶ Asia/Tehran
  • روس کے خلاف، یورپی ملکوں کو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی ٹریننگ

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جنیوا میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی کے حوالے سے تخفیف اسلحہ کانفرنس میں کہا کہ امریکہ یورپی ملکوں کو، روس کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے لئے تیار کر رہا ہے۔

ماسکو مدتوں سے یورپ میں امریکہ کے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کی تعیناتی جاری رہنے کے خلاف احتجاج کر رہاہے۔ روسیوں کے نقطہ نگاہ سے امریکہ اور نیٹو کے ممبر ممالک،  جوہری کشیدگی کے اپنے اقدامات کے ساتھ ہی یورپ میں ان ہتھیاروں کی تعیناتی کے باعث، تخفیف اسلحہ کے عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ روسی وزیر خارجہ نے صراحتا یورپ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی ٹریننگ کا مقصد، روس کے خلاف تباہ کن ہتھیاروں کا استعمال قرار دیا ہے۔ اس دھمکی آمیز صورتحال میں تبدیلی لانے کی لاوروف کی تجویز ، دراصل یورپ میں امریکہ کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعیناتی پر یورپی عوام کی برہمی اور مخالفت ہے۔

ان کا خیال ہے کہ رائے عامہ اور اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج، یورپ سے ان ہتھیاروں کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ مشرقی یورپ میں امریکہ اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی مقابلہ آرائی کے سبب یورپی عوام میں دیگر زمانوں سے زیادہ اس وقت، سرد جنگ کے بعد کے دور میں ایک ایٹمی مقابلے کا خوف پایا جاتا ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ زیگمار گابریل کے بقول سرد جنگ کی مانند ، یورپی ممالک کو نئے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کا سامنا ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم یورپ میں ایٹمی ہتھیاروں پر کنٹرول اور تخفیف اسلحہ سے متعلق نئے منصوبے شروع کریں۔ 

  قابل ذکر ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے ڈپوز میں کمی لائے جانے کے بین الاقوامی اقدامات کے باوجود ، امریکہ بدستور اپنے ایٹمی ڈپوز کے تحفظ میں  پرعزم ہے۔ اسی سلسلے میں امریکہ نے اپنے بعض ٹیکٹیکل نیوکلیر ہتھیاروں  کو جن میں تقریبا 200 ایٹم بم " بی 61 "  شامل ہیں،  یورپ کے پانچ ملکوں یعنی بلجیم، ہالینڈ، جرمنی، اٹلی اور ترکی میں تعینات کیا ہے، جس کی یورپ میں شدید مخالفت ہورہی ہے۔ اسی طرح امریکہ، یورپ میں اپنے ٹیکٹیکل ایٹمی ڈپوز کو لیس کرنے اور اس کی حفاظت میں بھی کوشاں ہے ۔اسی سلسلے میں امریکہ ، یورپ میں اپنے دو سو "بی 61" ایٹمی بموں کو گیارہ ارب ڈالر کے اخراجات سے گائڈیڈ اسمارٹ بموں میں تبدیل کرنے میں کوشاں ہے۔

بنیادی طور پر یورپ میں امریکہ کے ٹیکٹیکل بموں کی بھاری مقدارمیں موجودگی کا مسئلہ  ابھی بھی یورپ کے ان ملکوں میں جہاں یہ ہتھیار نصب کئے جارہے ہیں ایک متنازعہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ حالیہ دوعشروں مں یورپ کے بہت سے افراد یہ گمان کرتے تھے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکہ ، یورپ سے اپنے ایٹمی ہتھیار نکالنے کی منصوبہ بندی کریگا لیکن عملی طور پر امریکہ، یورپ میں نہ صرف اپنے ٹیکٹیکل ایٹمی ڈپوز کے تحفظ پر تاکید کررہا ہے بلکہ ان کی دوبارہ تعمیر کے لئے بھاری اخراجات کے منصوبے بھی تیار کررہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2012 میں شیکاگو میں ہونے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں نیٹو کے سربراہوں نے، یورپ میں امریکہ کے ایٹمی بموں کے مارڈنائیزیشن کے امریکی منصوبے پر اتفاق رائے کیا تھا۔ کیوں کہ نیٹو کے ممبر ممالک نے مذکورہ اجلاس میں اس امرپر تاکید کی تھی کہ ایٹمی ہتھیار، نیٹو کی دفاعی پالیسی کا اہم حصہ شمار ہوتے ہیں اور ان تمام ہتھیاروں کی افادیت کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔

نیٹو کے ایٹمی ہتھیاروں کے مشترکہ پروگرام، غیر ایٹمی ممبر ممالک کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ ایٹمی ملکوں کی میزبانی کے فرائض انجام دیں۔ نیٹو کے بعض ممبر ممالک کی جانب سے ایٹمی ملکوں کی میزبانی اور ان ملکوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی مشقوں اور ٹریننگ پر روس کی تنقید سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایٹمی مسئلے میں مغرب کے دوہرے معیار پر ماسکو کی توجہ مبذول ہے ۔ در حقیقت مغربی ممالک ان مقامات پر کہ جہاں ایٹمی ہتھیاروں کا نصب کرنا ان کے فائدے میں ہو وہاں وہ انہیں ضرور نصب کرتے ہیں اور بین الاقوامی معاہدوں منجملہ این پی ٹی کو نظر انداز کرتے ہیں ۔      

ٹیگس