Apr ۱۳, ۲۰۱۸ ۱۹:۲۱ Asia/Tehran
  • ٹرمپ کی مہم جوئی کے باوجود دمشق کے مشرقی غوطہ علاقے پر شامی فوج کا تسلط

شامی فوج اور اس ملک کی عوامی مزاحمتی فورسز نے کئی ہفتوں تک دہشت گردوں کے خلاف جنگ اور ان کے علاقائی و بین الاقوامی حامیوں کی دھمکیوں اور وسیع پیمانے پر میڈیا یلغار کے باوجود آخرکار ریف دمشق کے اسٹریٹیجک علاقے مشرقی غوطہ کو آزاد کرالیا-

شام کی سرکاری فورسز نے شہر دوما پر مکمل تسلط پانے کے ساتھ ہی مشرقی غوطہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے- دوما ، کہ جو مشرقی غوطہ کے علاقے میں سب سے بڑا شہر شمار ہوتا ہے اس علاقے کا آخری شہر تھا کہ جو مسلح مخالفین اور تکفیری دہشت گردوں، منجملہ وہابی دہشت گرد گروہ جیش الاسلام کے قبضے میں تھا- دوما کے باشندوں نے اس علاقے سے دہشت گردوں کے نکل جانے اور شامی فوج کے ہاتھوں اس کی آزدای کے بعد ایک بار پھر اپنے ملک کا قانونی پرچم لہرا دیا ہے۔ مشرقی غوطہ سے دہشت گردوں کا صفایا اور دہشت گردوں کی شکست ان کے حامیوں کے لئے اس حد تک دردناک تھی کہ انہوں نے شام اور اس ملک کے اتحادیوں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کرنا اور دھمکیاں دینا شروع کردیا۔ 

شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب واقع غوطہ شرقی ایک ایسا اسٹریٹیجک علاقہ ہے جس پر دہشت گرد گروہوں نے قبضہ کر رکھا تھا اور اس علاقے سے دہشت گرد آئے دن شامی شہریوں پر مختلف قسم کے ہتھیاروں سے حملے کیا کرتے تھے۔ شامی عوام کی حمایت میں اس ملک کی فوج نے غوطہ شرقی کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کے لئے ایک بڑی کارروائی شروع کی تھی اور اس علاقے کے عوام کا تحفظ کرتے ہوئے غوطہ شرقی سے دہشت گردوں کا صفایا کرنا شروع کیا تھا۔

مشرقی غوطہ کے باشندے منمجلہ حرجلہ علاقے کے باشندے کہ جن میں سے بہت سے انسانی ڈھال کے طور پر دہشت گردوں کے ہاتھوں اسیر تھے، شامی فوج کی کامیابی کے بعد سڑکوں پر نکل آئے اور شامی صدر بشار اسد اور اس ملک کی فوج کی کامیابیوں کی حمایت میں نعرے لگائے- خبری حلقوں منجملہ روسی ٹیلیویژن نے دوما کی آزادی کے بعد اس علاقے کے باشندوں کی خوشی و شادمانی کی تصاویر نشر کی ہیں- 

شامی فوج نے ایک بار پھر مشرقی غوطہ کے دہشت گردوں کے خلاف بڑی کاروائی کرکے یہ عظیم کامیابی حاصل کی ہے- شام کے بحران کے دوران دنیا نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ جب بھی شامی فوج نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے اس کے فورا بعد ہی شامی فوج پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگایا گیا ہے تاکہ اس کی پیشقدمی جاری رہنے اور دہشت گردوں کا کام تمام کرنے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی جائے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ وہ فوج جو پیشقدمی کرتی ہے اس کی ثقافت اور منطق میں کبھی بھی کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال نہیں رہا ہے بلکہ کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی فوج کو شکست کا سامنا ہوتا ہے اور وہ اس طرح سے دشمن کی پیشقدمی کو روکنا چاہتی ہے۔ لیکن اب تک شامی فوج کے خلاف چند مرتبہ کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا جو الزام عائد کیا گیا ہے وہ اس کی پیشقدمی کے وقت تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الزامات من گھڑت تھے اور دیگر مقاصد کے حصول کے لئے لگائے گئے تھے- اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے حامی ممالک جیسے امریکہ، سعودی عرب، فرانس اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلح دہشت گرد گروہ نہ صرف شام کا تختہ پلٹنے کی قوت و صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں کو بچانے پر بھی قادر نہیں ہیں۔ اس لئے خود یہ ممالک میدان میں اترنا چاہتے ہیں اور میزائلوں اور فضائی حملوں کے ذریعے دو مقاصد حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ اول تو یہ کہ جنگ کا نقشہ تبدیل کریں اور وہ جنگ جو آج تک تکفیریوں کے ساتھ تھی وہ علاقائی اور عالمی پہلو سے ملکوں کے درمیان جنگ میں تبدیل ہوجائے اور دوسرے یہ کہ شام اور روس پر بھاری دباؤ ڈالیں تاکہ شکست خوردہ گروہوں کو کسی طرح سے سیاسی راہ حل میں شامل کریں-

امریکہ کو شام کے علاقے مشرقی غوطہ کے مسئلے پر نفسیاتی اور سیاسی جھٹکا لگا ہے کیوں کہ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہ علاقہ جو گذشتہ سات برسوں میں ، شام کے بحران میں مغرب اور دہشت گردوں کے اسٹریٹیجک ذخیرے کے طور پر تھا شامی فوج کی کاروائی شروع ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا-

شام میں فائربندی کے نگراں روسی مرکز کے سربراہ یوری یوتو شنکو نے شہر دوما پر، کہ جس پر جیش الاسلام دہشت گرد گروہ نے قبضہ کر رکھا تھا، شامی فوج کا مکمل کنٹرول ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کی تاریخ میں ایک اہم واقعے کی حیثیت سے شہر دوما کے مختلف علاقوں میں شام کا قومی پرچم لہرا دیئے جانے سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ شہر دوما پر اب دہشت گردوں کا کنٹرول نہیں ہے اور اس شہر کو ان کے قبضے سے آزاد کرا لیا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس شہر میں نظم و نسق اور امن و امان کے قیام کے لئے سیکورٹی اہلکار مکمل تیاری کر رہے ہیں تاکہ اس شہر کو حکومت شام کے کنٹرول میں دیا جا سکے-

شام کے صدر بشار اسد کی پریس مشیر بعثینہ شعبان نے بھی شام پر حملے کے لئے امریکہ کو اکسانے والے عامل کی حیثیت سے اسرائیل کو علاقے کے حالات و جنگ میں شکست خوردہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی آل سعود حکومت بھی دو ہزار گیارہ سے شام کے خلاف جنگ میں ملوث ہے اور شام کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے محاذ میں سعودی عرب بھی پیش پیش رہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنے ٹوئیٹ میں ، شام پر اپنے جدید اور گائیڈد میزائیلوں سے حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے جس پر انھیں سخت خبردار کیا گیا ہے-         

   

ٹیگس