Apr ۱۸, ۲۰۱۸ ۱۶:۴۲ Asia/Tehran
  • یمن کے بارے میں سلامتی کونسل کا جانبدارانہ اجلاس

یمن کے بارے میں گزشتہ روز منعقدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس ملک کے خلاف آل سعود کے جرائم کی جانب کوئی اشارہ نہیں ہوا جبکہ اس ملک کے خلاف جنگ بھی نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مدتوں بعد گزشتہ روز ایک بار پھر یمن کے مسئلے کا جائزہ لیا تاہم اس میں بحران یمن کے بارے میں مغربی طاقتوں کے ذرائع ابلاغ کے صرف دعوے ہی دہرائے گئے- ایسے عالم میں جب سعودی عرب گذشتہ تقریبا سینتیس مہینوں سے اس ملک پر نابرابری کی جنگ مسلط کئے ہوئے ہے، اقوام متحدہ میں امریکہ اور برطانیہ کے نمائندے سعودی عرب کے خلاف حوثیوں کے جوابی حملوں اور ایران کی جانب سے حوثیوں کی حمایت کے دعؤوں کو ہی دہرائے جا رہے ہیں-

سلامتی کونسل کہ جس کی حیثیت ، شام کے خلاف جنگ میں امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے نظرانداز کئے جانے کے باعث بہت کم ہوگیی ہے ان تینوں ملکوں کے لئے مسلسل آلہ کار بنی ہوئی ہے یہاں تک کہ حالیہ عشروں میں رونما ہونے والے عالمی انسانی المیوں میں اسے آزادی کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حق بھی نہیں رہا-  ایسے عالم میں جب اس کونسل کے مستقل اور غیرمستقل اراکین شام کے بارے میں متعدد قراردادیں منظور کرچکے ہیں یہاں تک کہ شام پر امریکہ برطانیہ اور فرانس کے حملے سے قبل اس ملک کے خلاف سلامتی کونسل میں ایک ہی دن میں تین قراردادوں کو ویٹو بھی کیا جا چکا ہے تاہم یمن کے بارے میں اس کونسل کے گذشتہ روز کے اجلاس میں کوئی مسودہ قرارداد تک پیش نہیں کیا گیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلامتی کونسل نے اس وقت یمن کے بارے میں اجلاس کیوں بلایا؟

اس کی علت اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نیکی ہیلی اور برطانوی نمائندے کارن پیرس کے بیانات سے واضح ہوجاتی ہے- اقوام متحدہ میں  برطانیہ کے نمائندے نے گذشتہ روز سلامتی کونسل میں کہا کہ ہم سعودی عرب کے غیرفوجی اہداف پر حوثیوں کے حملوں اور بیلیسٹیک میزائلوں کے استعمال کی پرزور مذمت کرتے ہیں درایں اثنا کارن پیرس نے دعوی کیا کہ اقوام متحدہ کے ماہرین کا پینل اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یمن کے خلاف اسلحہ جاتی پابندیاں منظور ہونے کے بعد ایران سے میزائل کے کل پرزے یمن پہنچے ہیں-

اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ روز کے سلامتی کونسل کے اجلاس کا مقصد حوثیوں کی دفاعی طاقت کو روکنا اور اسلامی جمہوریہ ایران پرالزام لگانا تھا- درحقیقت سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا اصل ہدف سعودی عرب کی حمایت کرنا تھا کیونکہ ریاض ، حوثیوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتا ہے- یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہوا ہے کہ یمن کے خلاف جنگ کا نیا مرحلہ شروع ہوگیا ہے-

ایک جانب یمن کی فوج اور عوامی رضاکار فورس کی دفاعی طاقت مضبوط ہونے سے سعودی عرب کو مزید نقصان پہنچنے کا امکان بڑہ گیا ہے اور دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ان نقصانات اور کمزوریوں کوچھپانے کے لئے یمن میں انسانی المیے میں اضافے کو مدنظر رکھے بغیر اس ملک کے خلاف حملوں کو تیز کردیا ہے-

درایں اثنا سعودی جنگی طیاروں نے گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران صوبہ صعدہ اور تعز پر تیئیس بار بمباری کی ہے اس کے باوجود سلامتی کونسل کے گزشتہ روز کے اجلاس میں یمن میں سعودی عرب کے جرائم کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا گیا حتی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیوگوترش نے اپنے دورہ ریاض میں بھی مشرق وسطی کے سب سے غریب ملک یمن کے خلاف آل سعود کے جرائم کی جانب کوئی اشارہ تک نہیں کیا - سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا یہ رویہ اس بین الاقوامی ادارے کا دیوالیہ پن شمار کیا جا رہا ہے- 

ٹیگس