May ۲۰, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۶ Asia/Tehran
  • آل خلیفہ کے لئے ٹرمپ کی وسیع حمایت اور بحرین میں امریکہ مخالف احتجاج میں شدت

امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن نے تقریبا پینتالیس ملین ڈالر کے تین ہزار بم بحرین کو فروخت کرکے اس ملک کے ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی کاروائیوں کو تقویت پہنچانے پر اتفاق کیا ہے-

امریکہ اور بحرین کے درمیان فوجی معاہدے ایسے وقت میں انجام پا رہے ہیں کہ انسانی حقوق کے گروہوں اور تنظیموں نے اس سے قبل، بحرینی عوام کے حقوق پامال کرنے والی آل خلیفہ حکومت کے لئے ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھنے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا- لیکن مغربی حکومتیں کہ جو ڈموکریسی کا جھوٹا دم بھرتی ہیں اپنے مفادات حاصل کرنے کے دائرے میں خلیج فارس کے عرب ملکوں پر اپنا تسلط جمانے کے لئے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی پر تنقید کرنے کے بجائے سیاسی اور سفارتی حمایت کر رہی ہیں اور بحرین سمیت دیگرعرب ملکوں کو ہتھیار فروخت کر رہی ہیں-

اسی سلسلے میں برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ نے کچھ عرصہ قبل ایک مضمون شائع کرکے بحرین میں امریکہ اور برطانیہ کے فوجی اڈوں کے قیام کو، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سامنے ان ملکوں کی خاموشی کی پاداش قرار دیاہے-  بحرین میں امریکی فوجی اڈے کی توسیع میں حالیہ برسوں میں ایسے میں اضافہ ہوا ہے کہ بحرینی فوجی، امریکی اڈوں میں تعینات امریکی فوجیوں سے ٹریننگ لیتے ہیں اور بحرینی عوام کو سرکوب کرتے ہیں-  

بحرین اور امریکہ نے 1971 میں مشترکہ فوجی معاہدے پر دستخط کئے تھے کہ جس کی بنیاد پر بحرین کے چالیس کیلومیٹر رقبے پر پھیلی زمین امریکہ کے اختیار میں دی گئی اور 1995 میں سرکاری طور پر بحرین نے امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کی میزبانی سنبھال لی- برطانیہ نے بھی کچھ عرصہ قبل بحرین کے سلمان بندرگاہ میں اپنے دائمی فوجی اڈے کا افتتاح کیا تھا- 

آل خلیفہ نے کئی دہائیوں سے بحرین کی اکثریت کو اس کے حقوق سے محروم کر رکھا ہے اور اس غرض سے سعودی عرب سے بھی فوجی اور سیاسی مدد لے رہا ہے۔ آل سعود جس کے سامراج اور صیہونیت کے اتحادی ہونے کے بارے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں حقیقی اسلام کا کٹر دشمن سمجھا جاتا ہے۔ آل سعود نے آل خلیفہ کو فوجی مدد دے کر انقلابیوں کی سرکوبی میں نہایت منفی کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت سعودی عرب کے جارح فوجی آل خلیفہ کے ساتھ مل کر نہتے بحرینی عوام کو کچلنے میں مشغول ہیں۔ سعودی عرب کے ان علاقوں میں جہاں شیعہ مسلمان اکثریت میں ہیں، کیا مفادات ہوسکتے ہیں اور آل سعود مختلف طرح سے ان علاقوں میں کیوں سرگرم عمل دکھائی دیتی ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بوڑھے سامراج نے آل سعود کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ ساری دنیا میں حقیقی اسلام کا مقابلہ اور اپنے  پیسے اور سامراج و صیہونیت کی بھر پور حمایت سے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اور اختلافات پھیلانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے گی اور وہ اسلام کے نام پر کفر و شرک و نفاق کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہر اس جگہ سرگرم عمل دکھائی دے گی جہاں اہل حق کا بول بالا ہے۔  آل خلیفہ میں اتنی سکت اور توانائی نہیں تھی کہ وہ عوام کی انقلابی تحریک کا مقابلہ کر سکتی لہذا آل سعود نے بحرین میں عوامی تحریک کو اپنے ملک کی طرف بڑھتے دیکھ کر اپنی فوجیں بحرین بھیج دیں جس کے نتیجے میں آل خلیفہ کی شاہی حکومت کو سہارا مل گیا اور اس نے ملت بحرین کے حقوق نہایت ہی بےدردی سے پامال کرنا شروع کر دیئے۔

دراین اثنا بحرین کی مختلف انقلابی اور عوامی تحریکوں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ آل خلیفہ کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کر کے ملت بحرین کے حقوق کے احترام کو یقینی بنائے۔ امریکہ، مغربی ممالک، صیہونی حکومت اور علاقے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے پٹھو ممالک، ملت بحرین کی انقلابی تحریک کو اپنے فائدے میں نہیں دیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے اس تحریک کو کچل کر دیگر تحریکوں کو کچلنے کا راستہ ہموار کریں اور بحرین کے امریکہ کے فوجی ہتھیاروں اور بموں کی فروخت کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

 

ٹیگس