May ۲۰, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۷ Asia/Tehran
  • ہندوستانی وزیر اعظم کے دورۂ کشمیر کے موقع پر وسیع مظاہرے

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے خلاف وادی کے مشتعل عوام نے وسیع پیمانے پر مظاہرہ کرکے مردہ باد نریندر مودی کے نعرے لگائے اور اس علاقے سے ہندوستانی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ کیا-

مظاہرے کے شرکاء نے ہندوستان کی سیکورٹی فورسیز کے حملوں میں کشمیریوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے ان حملوں کو بند کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ہندوستان کی حکومت نے، اس ملک کے زیر انتظام کشمیر میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے سیکورٹی تدابیر سخت کرنے کے ساتھ ہی انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی بند کردی ہے۔  وزیر اعظم نریندر مودی، کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ بتانے اور اس علاقے پر نئی دہلی کی توجہ مرکوز رکھنے کے مقصد سے اکثر کشمیر کے دورے پر جاتے رہتے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ کشمیری عوام اپنے علاقے میں ہندوستانی فوج کی موجودگی کی مخالفت کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے-

مودی نے ایسی حالت میں اس علاقے کا دورہ کیا ہے کہ جب ایک آٹھ سالہ کشمیری بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہرے کئے گئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس میں ہندوستانی پولیس ملوث تھی، چنانچہ اس مسئلے نے نئی دہلی کے خلاف ماضی سے زیادہ  کشمیری عوام کے غم و غصے میں اضافہ کردیا ہے۔ اس جارحیت کے خلاف ہندوستانی وزیراعظم کے تاخیر سے ظاہر کئے گئے ردعمل کے سبب، کشمیری عوام کی نظر میں اس واقعے میں ہندوستانی فورسز کی کارکردگی کی گویا نریندر مودی بھی تصدیق کرتے ہیں- اس طرح سے ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ مودی نے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کی دلجوئی کے لئے یہ دورہ انجام دیا ہے-

یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس علاقے کے عوام اپنے علاقے میں ہندوستانی فوجیوں کے انخلا اور سیکورٹی فورسیز کی کاروائیاں بند کئے جانے کے خواہاں ہیں- کیوں کہ یہ اختیارات ہندوستانی فوجیوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اس علاقے میں جو جارحیت بھی چاہیں انجام دیں- 

سیاسی مسائل کے ماہر فارض احمد کہتے ہیں آخر کب تک کشمیری عوام ہندوستانی فورسیز کی بندوق کے سائے میں زندگی گذاریں گے؟ اس علاقے کے عوام برسوں سے موت اور غارتگری کا بازار گرم دیکھ رہے ہیں اور اب یہ صورتحال ختم ہونی چاہئے-

مسئلہ کشمیر نے نہ صرف حکومت ہندوستان کی کارکردگی اور پالیسیوں کو مشکل اور وسیع احتجاج سے دوچار کردیا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں- 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کے وقت سے ہی کشمیرکے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور دونوں ملک اس مسئلے پر دومرتبہ جنگ بھی کرچکے ہیں اور ابھی بھی کشمیر کا بحران ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات پر سایہ فگن ہے اس طرح سے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد، نہ جنگ اور نہ ہی صلح کی صورتحال سے دوچار ہیں-

سیاسی مسائل کے ماہر جمال قدوئی کہتے ہیں کہ 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کی تقسیم کے بعد بحران اور کشیدگی دونوں ملکوں کے درمیان جاری ہے اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ جنگ، بحران کشمیر کا حل نہیں ہے- میرے خیال میں دونوں ملکوں کو چاہئے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے اپنی صلاحیتوں کامظاہرہ کریں-

بہرصورت ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم سیاسی گروہ اور عوام کا خیال ہے کہ اس ملک کی حکومت کو چاہئے کہ وہ سات عشروں سے جاری وادی کے بحران کو ختم کرنے یا پھر اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل کرتے ہوئے ریفرنڈم کے ذریعے، کشمیر کی حیثیت کے تعین پر اتفاق کرے یا پھر کشمیری عوام کے نمائندوں، اور ہندوستان و پاکستان کے حکام کی موجودگی میں سہ فریقی اجلاس کا انعقاد کرائے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں کشمیر میں جاری بحران اس بات کا باعث بنے گا کہ جنوبی ایشیا کا علاقہ، ہندوستان اور پاکستان کی رسہ کشی کے سبب بدستور دنیا کا سب سے زیادہ فوجیوں کی تعیناتی کا علاقہ بنا رہے۔        

ٹیگس