May ۲۶, ۲۰۱۸ ۱۸:۲۸ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں امریکہ اور یورپ کے اختلافات میں شدت

جرمنی کے وزیر خارجہ ہایکو میس Heiko Maas نے واشنگٹن میں امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائک پامپیئو سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ یورپ اور امریکہ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں مصالحت سے بہت دور رہے ہیں اور بنیادی طور پر یورپ اور امریکہ دو یکسر مختلف راستے پر گامزن ہیں۔

میس کے بقول، امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر خارجہ دونوں نے ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اپنے گذشتہ مواقف کی تکرار کی ہے اور کوئی نئی چیز ان کی باتوں میں نہیں تھی-

ایٹمی معاہدے کے بارے میں یورپی یونین کے اہم ترین ملک کی حیثیت سے جرمنی کا امریکہ کے ساتھ  تبادلۂ خیال اس امر کا غماز ہے کہ ایٹمی معاہدے پر یورپ بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے- ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے کے تعلق سے یورپی ملکوں کو ٹرمپ کا منفی جواب ملنے، اور مائک پامپیئو کے توسط سے ایران کے بارے میں امریکہ کی نئی اسٹریٹیجی کے اعلان کے باوجود، ہایکو ماس کے دورۂ امریکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی سمیت یورپی ملکوں کے نزدیک ایٹمی معاہدے کو اہمیت حاصل ہے- تاہم جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، اس دورے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا- اس وقت یورپ اور امریکہ کے درمیان تجارت سمیت مختلف مسائل میں اختلافات کی ایک طویل فہرست ہے- اس کے ساتھ ہی اس وقت ایٹمی معاہدہ، بحر اٹلانٹک کے دونوں طرف کے درمیان اختلاف کے مرکز میں تبدیل ہوگیا ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ ایٹمی معاہدہ یورپ کے لئے مختلف پہلوؤں سے اہمیت رکھتا ہے -

یورپ کے لئے ایٹمی مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر اس وقت گیند یورپ کی زمین میں ہے تاکہ وہ ٹرمپ کے ساتھ ان کی، ایک بار ہمیشہ کے لئے کہ جو بحر اٹلانٹک کے اس جانب کے مفادات سے بے توجہی برتتے ہوئے صرف اپنے مفادات اور پالیسیوں کی بنیاد پر ایٹمی معاہدے سے نکل گئے ہیں، سخت محاذ آرائی ہو، یا پھر یورپ مناسب ردعمل ظاہر نہ کرکے اور واشنگٹن کی پابندیوں کے مطالبات مان کر، نہ صرف اپنا آزادی عمل کھو بیٹھے بلکہ تہران کے خلاف امریکی مطالبات کے سامنے لچکدار موقف اپنا کر یا خاموشی اختیار کرکے اپنے تجارتی اور اقتصادی مفادات سے ہاتھ دھو بیٹھے-  ایٹمی معاہدے کے منسوخ یا ختم کئے جانے کی صورت میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر وسیع پیمانے پر سلامتی کو نقصان پہنچے گا اور امکان ہے کہ دوسروں سے زیادہ یورپی ملکوں کو اس کی قیمت چکانی پڑے- 

ایٹمی معاہدے کی منسوخی کی صورت میں نہ صرف یورپ کی پوزیشن بین الاقوامی سطح پر خدشے سے دوچارہوگی بلکہ ایٹمی مذاکرات کے آغازگر اور نگراں کی حیثیت سے اس کی ساکھ متاثر ہوگی- درحقیقت ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ایک عظیم کامیابی تھی کہ جویورپی یونین کو بین الاقوامی سطح پر حاصل ہوئی ہے- اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کے بقول کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر ایٹمی معاہدے کو منسوخ نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ کوئی دوطرفہ معاہدہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی ورثہ ہے-

اس وقت ایٹمی معاہدے کے مسئلے پر امریکہ اور یورپ کے درمیان جو اختلاف ہے اس کا ریکارڈ نہیں ملتا۔ بریسلز نے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے لئے ٹرمپ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدہ یورپ، علاقے اور پوری دنیا کی سلامتی کے تحفظ کے لئے ضروری ہے- اسی سبب سے یورپ اپنی سلامتی کے مفادات پر عمل کرنے کے درپے ہے- اس وقت ایٹمی معاہدہ یورپی یونین کے لئے ایک تاریخی موڑ اور سنگ میل شمار ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے مفادات اور بین الاقوامی امن و استحکام کی بنیاد پر ٹرمپ کی جنگ پسندانہ پالیسی کے راستے سے خود کو الگ کرلے-

بہرحال اس وقت ایٹمی معاہدے کے مسئلے پر یورپ اور امریکہ کے درمیان گہرے اختلافات پائے جانے کی عکاسی ہوتی ہے- اور جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے امریکہ کے دورے کے موقع پر امریکی حکمرانوں کو یورپی یونین کے مؤقف کے بارے میں واضح طور پر بتا دیا ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے مشترکہ ایٹمی معاہدے کی حمایت کا سلسلہ جاری رہے گا اور اس سلسلے میں امریکی دباؤ کو قبول نہیں کیا جائے گا-

   

 

ٹیگس