May ۲۷, ۲۰۱۸ ۱۷:۰۲ Asia/Tehran
  • قطر کے خلاف سعودی اتحاد میں دراڑ، اردن، قطر کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں

عرب ممالک کے درمیان کشیدگی کو ایک سال ہونے کو ہیں تاہم ثبوت و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ قطر کے بائیکاٹ اور محاصرے کی سعودی عرب کی پالیسیوں کو ناکامی کا سامنا ہے

قطر اور چار عرب ممالک کے درمیان کشیدگی کا آغاز پانچ جون دوہزارسترہ سے ہوا ہے اور اس کے بعد سے سعودی عرب اور دیگر تین ملکوں نے قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے اس ملک کے لئے اپنی زمینی، فضائی اور بحری سرحدیں بند کردیں اور اس کا محاصرہ اور بائیکاٹ کردیا- سعودی عرب نے قطر پر مزید دباؤ ڈالنے کے لئے اردن سمیت بعض چھوٹے عرب ممالک کو بھی اپنے ہمراہ کررکھا ہے-

قطر کے محاصرے اور بائیکاٹ کو ایک سال کا عرصہ ہونے کو ہے اور قطر کے محاصرے اور بائیکاٹ کی سعودی پالیسیوں کی ناکامی عیاں ہونا شروع ہوگئی ہے - اس تناظر میں حکومت اردن کی جانب سے گذشتہ دنوں اردن اور قطر کے درمیان براہ راست بحری لائن کا افتتاح قابل غور ہے - اردن اور قطر کے وفود نے بھی گذشتہ مہینوں ان دونوں ملکوں کے دورے کئے ہیں- اصلاح الائنس کے ممبران نے کہ جنھیں اردن کے اخوان المسلمین کی حمایت حاصل ہے فروری دوہزار اٹھارہ میں حکومت کے نام ایک خط میں اس ملک کے سفیر کی دوحہ واپسی کا مطالبہ کیا ہے- دونوں  ملکوں کی ہوائی کمپنیوں نے بھی فضائی حقوق کے سلسلے میں تعاون کے سمجھوتے پر دستخط کئے ہیں حتی قطر کے ایک سیکورٹی وفد نے بھی اردن کے دارالحکومت امان کا دورہ کیا ہے- درایں اثنا فلسطین کے سلسلے میں اردن اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں یہاں تک کہ بعض رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب کے ولیعھد محمد بن سلمان نے گذشتہ برس اردن کے بادشاہ کو فلسطین کے بارے میں سعود عرب کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے کی  بنا پر قتل کی دھمکی دی تھی- خلیج فارس تعاون کونسل کے اندر بھی عمان، کویت حتی متحدہ عرب امارات نے بھی عملی طور پر قطر کے خلاف سعودی عرب کی پالیسیوں کی پیروی نہیں کی - کویت اور عمان ، قطر کے ساتھ اپنی تجارت اور مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں-

 ڈومنیک ڈیڈلی نے فوربس سائٹ پر نشر ہونے والے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ : سعودی عرب اور قطر کے سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب کے ساتھ تو ہوگیا لیکن عملی طور پر قطر کے ساتھ بعض تعاون جاری رکھے ہوئے ہے -  قطر سے ڈلفین پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس کی سپلائی بدستور متحدہ عرب امارات اور وہاں سے عمان کے لئے جاری ہے اور قطر و متحدہ عرب امارات بندق ساحلی آئیل فیلڈ میں بھی اپنا تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں-

اس کے علاوہ کویت ، قطر اور عمان کہ جو خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ہیں سعودی عرب کے ساتھ علاقے کے اصلی مسائل کے بارے میں بھی کئی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان کھلا تضاد پایا جاتا ہے اور یہ موضوع امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل ہونے اور صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کے معاملے میں بخوبی سامنے آگیا ہے- 

امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل ہونے کے بعد ترکی کے شہر استنبول میں امریکہ کے اس اقدام کی مذمت کے لئے اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا - اس اجلاس میں امیر قطر اور امیرکویت تو موجود تھے تاہم کسی سعودی سربراہ  نے شرکت نہیں کی-

ان تبدیلیوں کے پیش نظر ایسا نظر آتا ہے کہ اس وقت اس کشیدگی کے نتیجے میں قطر سے زیادہ اس ملک کا محاصرہ کرنے والے ممالک خاص طور سے سعودی عرب پر بھاری دباؤ ہے کہ یا وہ قطر پر دباؤجاری رکھے یا اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرلے-

ٹیگس