Jun ۰۳, ۲۰۱۸ ۱۸:۴۷ Asia/Tehran
  • شام کے خلاف سعودی عرب کا نیا قدم ، عربی فوج کی تشکیل

سعودی عرب، شام میں عرب فوج تشکیل دے کر اور اس میں اس فوج کو تعینات کرکے، شامی فوج کے ساتھ نئی جنگ کا آغاز کرنے میں کوشاں ہے-

سعودی عرب نے گزشتہ سات برسوں میں دوسرے ملکوں سے زیادہ شام کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی ہے۔ آل سعود نے دہشت گرد گروہوں کے لئے پٹرو ڈالر کے دھانے کھول دیئے تاکہ انہیں شام کی حکومت کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ کرے- شام میں بعض دہشت گرد گروہ سرکاری طور پر آل سعود سے وابستہ ہیں اور ریاض سے براہ راست دستور لیتے ہیں۔ در ایں اثنا آل سعود نے، کہ جس نے مغربی ملکوں خاص طور پر امریکہ سے بہت زیادہ ہتھیاروں کی خریداری کی ہے، دہشت گرد گروہوں کو ہتھیار فراہم کرنے کی بھی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ ایک اور اقدام جو سعودی عرب نے انجام دیا یہ ہے کہ شام کی حکومت مخالف سیاسی شخصیات اور سرگرم کارکنوں کی اس نے مالی حمایت کی ہے-

یہ ایسے میں ہے آل سعود نے شام کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لئے جتنے بھی حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکا اور سعودی حکومت کی خواہش کی تکمیل نہ کرسکا- اس وقت ایسے میں جبکہ دہشت گرد گروہوں کا  شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں بتدریج صفایا ہو رہا ہے اور اقتدارمیں بشار اسد کا باقی رہنا بھی قطعی ہوچکا ہے، آل سعود عرب فوج کی تشکیل کے درپے ہے- 

عربی فوج کی تشکیل کا نظریہ تین سال قبل مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی ، سعودی بادشاہ ملک سلمان اور عرب لیگ کے چھبیسویں اجلاس میں پیش کیا گیا۔ لیکن عملی طور پر یہ نظریہ عرب ملکوں کے درمیان ٹھوس اختلافات کے باعث عملی شکل اختیار نہ کرسکا۔ سعودی حکومت نے مئی 2017 میں امریکی صدر ٹرمپ کے دورۂ ریاض کے موقع پر دہشت گردی کے خلاف اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کی تشکیل کا مسئلہ پیش کیا تھا کہ جو ایک سال کا عرصہ گذرجانے کے باوجود بھی نہ صرف عملی شکل اختیار نہیں کرسکا ہے بلکہ عملی طور پر اس کی تشکیل کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں-

اس وقت تیسری مرتبہ ایسے میں عربی فوج کی تشکیل کا مسئلہ پیش کیا گیا ہے کہ گذشتہ کی نسبت اس بار میں دو اہم فرق پایا جاتا ہے۔ پہلا فرق یہ ہے کہ اس بار یہ مسئلہ شام سے امریکی فوج کے نکالے جانے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کے اظہار خیال کے ردعمل میں سامنے آیا ہے- اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک عرب فوج تشکیل دینے اور اسے شام کے شمال مشرقی علاقے میں امریکی فوج کی جگہ تعینات کرنے کے درپے ہیں۔ یہ فیصلہ ایسے وقت لیا گیا ہے کہ جب امریکی حکومت نے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شمالی عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے لئے اربوں ڈالر ادا کریں- ٹرمپ نے دمشق اور حمص پر امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے حملوں سے قبل کہا تھا کہ اگر سعودی عرب چاہتا ہے کہ ہماری فوج شام میں رہے تو اس کا خرچ پورا کرے- 

ایک اور فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ عرب فوج کی سرگرمی کے جغرافیائی حدود کا بھی تعین ہوگیا ہے اور طے یہ پایا ہے کہ یہ فوج شام میں تعینات ہوگی۔  اس بناء پر سعودی عرب کا ہدف و مقصد شام کی حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھنے کےلئے عرب فوج کی تشکیل کے ذریعے کرد آبادی والے علاقوں میں سیرین ڈموکریٹک فورسیز کی مدد کرنا اور شام میں اقتدار کی مرکزیت کو ختم کرنا ہے۔ سعودی عرب ایسی شکستوں اور ناکامیوں کی تلافی کے درپے ہے کہ جس کا وہ گذشتہ سات برسوں کے دوران متحمل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی کوشش ہے کہ امریکہ کے ساتھ مل کر، عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں بھی عرب فوج تعینات کرے تاکہ عراق اور شام کے مزاحمتی گروہوں کے درمیان رابطہ منقطع کردے۔ آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب اس مرحلے میں بھی عربی فوج کی تشکیل میں کامیاب نہیں ہوسکے گا اور یہ مسئلہ بھی صرف ایک منصوبے کی حد تک ہی باقی رہ جائے گا۔

ٹیگس