Jun ۱۸, ۲۰۱۸ ۱۵:۴۹ Asia/Tehran
  •  شام میں ایران کی موجودگی پر اسرائیل کی تشویش

امریکہ اور صیہونی حکام نے شام میں ایران کی موجودگی کو ہمیشہ ایک خطرے کے طور پر ذکر کیا ہے۔ ان حکام کا یہ دشمنانہ موقف، درحقیقت اسٹریٹیجک تعاون کے دائرے میں امریکہ، اسرائیل اور اسی طرح سعودی عرب کی علاقائی پالیسیاں جاری رہنے کے لئے ایک بہانہ ہے-

ٹرمپ کی قومی سلامتی کے سابق مشیر مک مسٹر، اسرائیل کے لئے ایران کے خطرہ ہونے کے بارے میں کہتے ہیں " وہ چیز جس کا ہمیں سامنا ہے،اسرائیل کی سرحدوں پر ایران کی پراکسی فورسیز کی موجودگی ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی فرانسیسی صدر کے ساتھ حالیہ ملاقات میں کہا تھا کہ اسرائیل نے شام میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کردیا ہے اور اب وہاں پر اس کا ہدف ایران کی سرگرمیاں ہوں گی-

اس سلسلے میں صیہونی جریدے یوروشلم پوسٹ نے اتوار کو لکھا ہے ہم مقبوضہ فلسطین کی سرحد کے نزدیک یا شام میں ایران کی پراکسی فورسز کو مستحکم کرنے کی  کوششوں کی روک تھام کے لئے اقدام کریں گے۔  ان خیالات کا اظہار ایسے میں کیا جا رہا ہے کہ دمشق کے حکام نے ایران کے خلاف اسرائیل کے دعووں کو مسترد کیا ہے اور ایران نے بھی بارہا اعلان کیا ہے کہ اس نے  شام کے حکام کی دعوت پر دہشت گردوں سے مقابلے کے لئے اپنے فوجی مشیر شام روانہ کیئے ہیں- 

علاقے میں بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کی شکست و نابودی اگرچہ عراق اور شام کی قوم اور مسلح فورسز کے ہاتھوں، ایران اور روس کی ہمہ جانبہ حمایت سے انجام پائی تاہم ابھی بھی علاقے میں بدامنی کا جڑ سے خاتمہ کرنے میں وقت درکار ہے- امریکہ اور صیہونی حکومت کو ایران ، شام اور روس کے اتحاد سے شدید تشویش لاحق ہے کیوں کہ یہ ممالک اس اتحاد کو علاقے میں اپنے توسیع پسندانہ اہداف کی راہ میں ٹھوس رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔ 

داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے مالی اور اسلحہ جاتی حمایت کے ذریعے شام پر مسلط کی گئی سات سالہ جنگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ ، اسرائیل، سعودی عرب اور بعض دیگر علاقائی دھڑے شام کی تقسیم اور مزاحمت و استقامت کو کچلنے کے درپے ہیں لیکن ان کی یہ سازشیں ناکام رہ گئی ہیں۔ یہ کامیابی واضح اور روشن پیغام کی حامل ہے- اسی سبب سے امریکہ اور اسرائیل، شام کے قومی اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کی خلاف ورزی اور دمشق کے خلاف الزام تراشی کے ذریعے اس امر میں کوشاں ہیں کہ شام کے خلاف جنگ میں میدانوں میں حاصل ہونے والی شام کی کامیابیوں کے مستحکم ہونے میں رکاوٹ بن جائیں-

دہشت گردی کی مکمل طور پر نابودی کے لئے اس سلسلے میں تمام موثر عناصر کی شناخت کی ضرورت ہے۔ ایران نے موجودہ حساس حالات کو صحیح طور پر درک کرتے ہوئے، علاقے کی سلامتی پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے- دہشت گردی کے خاتمے کی ایران کی کوششوں کے، علاقے اور عالمی سطح پر مثبت نتائج سامنے آئے ہیں- اور اسی چیز نے امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب کے مذموم مثلث کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ کیوں کہ ان ملکوں کو بخوبی معلوم ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اور عالم اسلام کے متحد و منظم ہونے کی صورت میں، علاقے پر امریکہ کے مسلط کردہ سیاسی اور سیکورٹی نظام کی، نئے ڈھانچے میں کوئی جگہ نہیں ہوگی- نتنیاہو کا بیان درحقیقت اس زخمی بھیڑیئے کا مصداق ہے کہ جو ہر طرف دوڑتا بھاگتا ہے تاکہ اپنی بقا کے لئے کوئی راستہ تلاش کرسکے۔ اس لئے پورا یقین رکھنا چاہئے کہ یہ شکست، موجودہ خلاؤں کو پر کرنے کے لئے علاقے میں دشمنیوں اور کشیدگیوں کے نئے دور کا آغاز ہوگی-

 اسرائیل اب سعودی عرب کے ساتھ رابطہ قائم کرکے اس کوشش میں ہے کہ ایران سے بھرپور مقابلہ کرنے کے لئے، موجودہ حالات سے پورا فائدہ اٹھائے۔ صیہونی حکومت کے ان تمام اقدامات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ شام میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ نہ ہونے کے ساتھ ہی یہ بھی نہیں چاہتا کہ مزاحمت و استقامت باقی رہے اور فلسطین کا مسئلہ، ایک بار پھرعالم اسلام کی خبروں کی سرخیوں میں چھا جائے اور اسلامی ملکوں کے اولین مسئلے میں تبدیل ہوجائے۔ لیکن اسرائیل کے مذموم عزائم کے برخلاف یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور اسرائیل اس وقت مکمل طور پر گوشہ نشیں ہوچکا ہے۔ نتنیاہو اس وقت، علاقے میں ایران کے خطرہ ہونے اور اس کی مداخلت جیسے پروپیگنڈے اور الزام تراشیوں کے ذریعے، مزاحمت کے مقابلے میں حاصل ہونے والی پے درپے شکستوں کے باعث، اپنے غم و غصہ کو چھپانے میں کوشاں ہے- 

   

ٹیگس