Jun ۲۳, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۳ Asia/Tehran
  • وائٹ ہاؤس کی تجارتی پالیسیوں کے نتائج کے بارے میں واشنگٹن کو بیجنگ کا انتباہ

چین کی وزارت تجارت نے ایک بیان میں بیجنگ مخالف وائٹ ہا‎ؤس کی یکطرفہ تجارتی پالیسیوں کے نتائج کے بارے میں امریکہ کو خبردار کیا ہے-

اس بیان میں بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان حال ہی میں سامانوں پر ڈیوٹی لگانے کے حوالے سے ہونے والے سمجھوتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں واشنگٹن کی پالیسیوں کے خلاف بیجنگ خاموش نہیں بیٹھے گا- چین کی وزارت تجارت نے کہا ہے کہ اس ملک کے نرم اور لچکدار رویے کی بناء پر، چین کے سامانوں پر ٹیرف میں اضافے کے تعلق سے، امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اس لئے بیجنگ بھی امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں اسے سخت اور دنداں شکن جواب دینے پر مجبور ہے- امریکہ کی جانب سے ٹیکس عائد کرنے کے اقدامات کے  مقابلے میں چین کے سیاسی و اقتصادی حکام اور اسی طرح چینی ذرائع ابلاغ کے موقف سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ کسی بھی عنوان سے قابل اعتماد نہیں ہے-

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ اپنے وعدوں کے بھی پابند نہیں ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کو امریکہ کے ساتھ اقتصادی تعاون جاری رکھنے میں سخت و دشوار حالات کا سامنا ہے کیوں کہ امریکی صدر نے صراحتا چین پر دانشورانہ املاک اور امریکہ کی جدیدترین ٹکنالوجیز کی چوری کا الزام لگایاہے- بعض سیاسی حلقوں کا بھی خیال ہے کہ امریکہ اور چین کے تجارتی تعلقات میں نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور واشنگٹن کا اہم ترین مقصد چین پر مزید تجارتی اور اقتصادی دباؤ ڈالناہے تاکہ اسے معاشی ترقی کے لحاظ سے  کمزور کرکے، اسے عالمی طاقت میں تبدیل ہونے سے روک دے-        

امریکہ نے 18 جون کی رات کو ایک بیان میں چین کی پچاس ارب امریکی ڈالرز کی مصنوعات پر محصولات لگانے کے بعد مزید 200 بلین امریکی ڈالرز کی چینی مصنوعات پر مزید 10 فیصد محصولات لگانے کے حوالے سے خبر دار کیا ہے۔اس تناظر میں چین کی وزارت تجارت نے امریکہ کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا یہ اقدام فریقین کے درمیان طے پانے والے اتفاق رائے کی خلاف ورزی ہے اور عالمی برادری کو اس سے مایوسی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ تاحال امریکہ کی جانب سے چین کی جن مصنوعات پر زیادہ محصولات لگانے کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے ان کی مالیت 450 بلین امریکی ڈالرز تک جا پہنچی ہے۔

چین کی جنرل ایڈ منسٹریشن آف کسٹمز کےاعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال چین کی جانب سے امریکہ کے لئے برآمدی مصنوعات کا حجم 420.8 بلین امریکی ڈالرز رہا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر امریکہ مذکورہ اقدامات کرے گا تو یہ امریکی منڈی کا دروازہ چین کے لئے بند ہونے کے مترادف ہوگا۔ یہ واقعی غیر معمولی اور احمقانہ عمل ہے۔امریکہ کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نہ صرف تجارتی توازن کی تلاش میں ہے بلکہ محصولات لگا کر عالمی سطح پر امریکہ کی سیاسی، معاشی، فوجی، سائنسی و تیکنیکی سمیت مختلف شعبوں میں بالادستی کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن امریکہ کے مذکورہ اقدامات زوال پذیر امریکہ کو نہیں بچا سکیں گے۔ 

اقتصادی مسائل کے ماہر ڈیوڈ ویلیمز کہتے ہیں 

ٹرمپ چین پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ چین، امریکہ میں ساٹھ ہزار کارخانوں کے ختم ہونے اور ساٹھ لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا باعث بنا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ نئے تجارتی اقدامات سے امریکی صدر کا مقصد چین کو سزا دینا اور عالمی منڈی میں اس ملک کی رقابت کی طاقت کو کم کرنا ہے-  بہرصورت چین کا خیال ہے کہ چینی مصنوعات کے خلاف امریکی اقدامات کا مقابلہ کرنے کی اس میں صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ بھی امریکی معیشت کو متاثر کرسکتا ہے ۔ اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ امریکہ میں اقتصادی ماہرین بھی دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ کے نتائج کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ چین برآمد کرنے والی  مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے سے امریکی معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا-

 

ٹیگس